پاکستان

سپریم کورٹ: رضا ربانی کے سینیٹ میں بہائے گئے آنسوئوں کا تذکرہ

اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ میں دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ رضا ربانی نے خود عدالت میں بتایا تھا کہ ان کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے، رضا ربانی کی اٹھارہویں ترمیم کیلئے بہت خدمات ہیں۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس کی سماعت کی۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹ تسلیم شدہ ہیں، آرمی ایکٹ کے تحت جرم کا گٹھ جوڑ ہو تو ملٹری ٹرائل ہوگا، ملٹری کورٹ میں ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوتا ہے، بات سویلین کے ٹرائل کی نہیں ہے سوال آرمی ایکٹ کے ارتکاب جرم کے ٹرائل کا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ جرم کے گٹھ جوڑ سے کیا مراد ہے۔ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ گٹھ جوڑ سے مراد جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا گٹھ جوڑ کیساتھ جرم کا ارتکاب کرنے والے کی نیت بھی دیکھی جائے گی۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ ملزم ملٹری ٹرائل میں جرم کی نیت نہ ہونے کا دفاع لے سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملزم کہہ سکتا ہے کہ میرا یہ جرم کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ اگر جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہے تو ٹرائل فوجی عدالت کرے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ نیت کا جائزہ تو ٹرائل کے دوران لیا جا سکتا ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 21 ویں ترمیم جنگی صورتحال کیلئے کی گئی تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئینی ترمیم اس لیے کی گئی کیونکہ ملٹری ٹرائل نہیں کر سکتے تھے۔

وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ ملٹری ٹرائل ہو سکتا تھا آئینی ترمیم کی وجہ کچھ اور تھی، وہ ملزمان سیکشن 2 ون ڈی ون کے جرائم میں نہیں آتے تھے، ان ملزمان کو قانون کے دائرہ میں لانے کیلئے آئینی ترمیم کی گئی، 9 مئی کے ملزمان 2 ون ڈی ون کے دائرہ میں آتے ہیں، 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ملٹری کورٹ کو تسلیم کرتے ہیں، قانون میں ترمیم کیلئے مخمل میں لگے پیوند کا جائزہ لینا ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 2 ون ڈی ون کا سیکشن 1967 سے آرمی ایکٹ میں شامل ہے، آج تک کے عدالتی فیصلوں میں اس شق کی توثیق کی گئی، 21 ویں ترمیم والے بنچ نے 2 ون ڈی ون کو تسلیم کیا، آئین کے آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 میں بنیادی حقوق کا جائزہ نہیں ہوسکتا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں قانون سازی کی نیت کا پہلو بھی دیکھا گیا، خواجہ صاحب آپ نے فیصلے کے اس پہلو کو نظرانداز کر دیا۔

سپریم کورٹ میں دوران سماعت رضا ربانی کے سینیٹ میں بہائے گئے آنسوئوں کا تذکرہ ہوا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سینیٹ کے سابق چیئرمین اکیسویں ترمیم کو ووٹ دے کر روئے بھی تھے، سابق چیئرمین سینیٹ کے آنسو بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ووٹ نہ دیتے تو زیادہ سے زیادہ سیٹ چلی جاتی۔ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ان کے رونے کی شاید وجہ یہ نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ رضا ربانی نے خود عدالت میں بتایا تھا کہ ان کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے، رضا ربانی کی اٹھارہویں ترمیم کیلئے بہت خدمات ہیں، رضا ربانی با اصول آدمی ہیں ان کا ووٹ دیکر رونا سمجھ آتا ہے، رضا ربانی کو علم تھا کہ وہ انہوں نے دراصل کیا کیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ووٹ دینے کے بعد دو سال تک وہ ناراض بھی رہے تھے۔ جس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔

سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button