شدید گرمی میں اندرون لاہور کے شہریوں کا برا حال کیوں؟
لاہور: گنجان آباد اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والوں کے لیے گرمیوں کا سیزن ایک عذاب کی طرح ہوتا ہے۔ دوپہر ڈھلتے ہی صحن اور گلی میں پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے تاکہ حرارت کم ہوسکے جبکہ لوڈ شیڈنگ کے دوران ہاتھ والے پنکھے استعمال کیے جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں لوگ کھلے صحن اور مکانوں کی چھتوں پر چارپائیاں ڈال کر رات گزارتے ہیں۔
اندرون دہلی گیٹ کے رہائشی محمد نعیم کہتے ہیں کہ گرمیوں کے تین ماہ (جون سے اگست) تک ان کی زندگی کے معمولات بدل جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چار مرلہ پر قائم تین منزلہ رہائشی عمارت کی دوسری منزل پر رہتے ہیں۔ پہلے والی منزل پر ان کے بڑے بھائی اپنی فیملی اور والدہ کے ساتھ رہتے ہیں جبکہ اوپر والی منزل پر ان کا چھوٹا بھائی اپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہے۔ ان سب بھائیوں کی پیدائش، شادیاں اسی گھر میں ہوئیں اور اب ان کے بچے جوان ہوگئے ہیں۔
محمد نعیم کہتے ہیں کہ جون، جولائی اور اگست کا مہینہ گرمی اور حبس کے حوالے سے کافی شدید ہوتا ہے لیکن وہ شاید اب سے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ان تینوں بھائیوں کے گھر میں ایئرکنڈیشنر نہیں ہے، گرمیوں میں پنکھے اور ایئرکولر چلا کر گزارہ کرتے ہیں۔
شہر کے اندر تنگ گلیوں اور کثیر منزلہ عمارتوں کی وجہ سے گرمی کم ہوتی ہے لیکن حبس بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ رات کے وقت اگر بجلی چلی جائے تو پھر کھجور کے پتوں سے بنے ہاتھ والے پنکھے ہلا کر گزارہ کیا جاتا ہے۔
گلبرگ سے ملحقہ پٹھان کالونی کے رہائشی امیر خان کہتے ہیں کہ گرمیوں میں جب دوپہر کو سورج ڈھلنے لگتا ہے تو گھر کے صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں، گھر کے باہر گلی میں بھی صفائی کرکے پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ ان جیسے بزرگ اپنی چارپائیاں گلی میں ڈال لیتے ہیں، رات گئے تک باتیں کرتے اور پھر سو جاتے ہیں، خواتین اور بچے گھروں میں ہی کمروں کے اندر یا پھر صحن میں سوتے ہیں۔ کمروں کے اندر گرمی اور حبس بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بچوں کو گرمی دانے نکل آتے ہیں۔
مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اندرون شہر سمیت گنجان علاقوں میں بڑھتی ہوئی تعمیرات کی وجہ سے درخت ختم ہوگئے ہیں جبکہ کئی لوگ ایئر کنڈیشنر استعمال کرتے ہیں اس وجہ سے درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور اس کا اثر ان لوگوں پر پڑتا ہے جو غریب ہیں، جن کے گھروں میں لوڈ شیڈنگ کے دوران پنکھے چلانے کے لیے یوپی ایس بھی نہیں ہیں۔ ایک خاتون نجمہ پرویز نے ہنستے ہوئے کہا کہ گرمیوں میں وہ بچوں سمیت اپنے مائیکے چلی جاتی ہیں جو گاؤں میں ہے، گرمیاں کے ڈیڑھ، دو ماہ وہاں گزار آتے ہیں۔
ماہر تعمیرات میاں زاہد کہتے ہیں کہ موسمی تغیرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی رہائش گاہوں کے طرز تعمیر کو تبدیل کریں۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی کی عمارتوں کو دیکھیں تو اس وقت چھتیں کافی اونچی رکھی جاتی تھیں جبکہ دیواروں کی چوڑائی بھی زیادہ ہوتی تھیں لیکن اب چونکہ سیمنٹ کے بلاک، اینٹوں اور کنکریٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے اور لوگ کثیر منزلہ گھربناتے ہیں تو چھتوں کی اونچائی کم رکھی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا گھروں کی تعمیر کے دوران ایک تو چھتیں اونچی رکھنی چاہیں دوسرا ہوا کی سرکولیشن کا انتظام ضروری ہے۔ دروازے اور کھڑکیاں ایسی سمت میں بنائی جائیں جن سے ہوا اور روشنی کا گزر ہو سکے۔
شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد کو قدرے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی بڑی وجہ کھلا ماحول، درخت اور سنگل اسٹوری گھر ہیں۔ لوگ آج بھی گھروں کے صحن اور مکانوں کی چھتوں پر چارپائیاں بچھا کر سوتے ہیں۔ ایک پنکھے کے سامنے گھر کے کئی افراد کی چارپائیاں بچھائی جاتی ہیں۔
طبعی ماہرین کے مطابق انسانی جسم تقریباً 37 ڈگری سینٹی گریڈ کے بنیادی درجہ حرارت پر کام کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ پہنچ جائے تو انسان بے ہوشی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ زیادہ جسمانی درجہ حرارت ہمارے جسم کے ٹشو کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس میں دل کے پٹھوں اور دماغ شامل ہیں۔ آگے جا کر یہ جان لیوا ہو جاتا ہے۔