’’پروفیسر‘‘ عاقب جاوید کے فارمولے
’’تو 2 کیا چار سنچریاں بھی بنا لے کون سا تجھے سلیکٹ ہونا ہے‘‘ ہا ہا ہا
چیمپئنز کپ کی بات ہے، کھلاڑیوں کے درمیان آپس میں گپ شپ ہو رہی تھی، کامران غلام بھی ساتھ تھے، ایسے میں کسی نے ان پر یہ جملہ کسا تو سب نے قہقہہ لگایا، ایسا نہیں تھا کہ وہ ان کا مذاق اڑا رہے تھے دراصل وہ سسٹم کی خرابی کو ہنسی میں ٹال رہے تھے۔
یہاں کھلاڑی برسوں ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز بناتا ہے لیکن اسے موقع ہی نہیں ملتا، اگر غلطی سے کسی کو ٹیم میں لے بھی لیا جائے تو ایک، دو میچز بعد باہر کر دیتے ہیں،بابر اعظم کے دور میں ایسا بہت ہوا،کامران 11 سال سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے ہیں، انھوں نے اس دوران خوب رنز بنائے، اسکواڈ میں شامل بھی ہوئے لیکن کھیلنے کا موقع نہیں ملا،اب تو شاید وہ بھی مایوس ہو گئے تھے، آخری قائد اعظم ٹرافی میں ان کی کارکردگی بہتر تو تھی لیکن وہ سابقہ سیزنز سے پیچھے رہے، ایسے میں چیمپئنز کپ ہو گیا جس میں انھوں نے 2 سنچریاں بنا دیں، لوگوں کی نظروں میں آئے لیکن چانس ملنے کا پھر بھی امکان نہ تھا۔
دوسرے ٹیسٹ کیلیے پہلے میچ کی پچ کا ہی استعمال ہوا، سینئرز کی چھٹی کر دی گئی، عمر رسیدہ یا ان فٹ قرار دے کر جنھیں گھر بھیج دیا گیا تھا ان اسپنرز کو واپس بلوا لیا گیا، اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے، نعمان علی اور ساجد خان نے مل کر 20 وکٹیں اڑا دیں، فٹنس یقینی طور پر ضروری ہے لیکن ہمیں کھلاڑیوں کو کسی اولمپک ریس کا حصہ نہیں بنانا کہ ہر حال میں 8 منٹ میں 2 کلومیٹر دوڑ مکمل کرانی ہے، اگر کوئی میچ فٹ ہے تو اسے ضرور موقع دیں۔
ویسے بھی نظریہ ضرورت کے تحت ورلڈکپ میں عماد وسیم اور اعظم خان کو بھی تو کھلایا گیا، کیا وہ سو فیصد فٹ تھے؟ خیر عاقب جاوید نے اب اچھا فیصلہ کیا ہے کہ کچھ عرصے تک فٹنس کے معاملے میں تھوڑی نرمی برتی جائے گی، اسپن پچ کی تیاری کیلیے بڑے بڑے پنکھے منگوائے گئے، لوگ عاقب پر ہنس بھی رہے تھے لیکن بعد میں سب داد دیتے دکھائی دیے، ایسا نہیں ہے کہ پاکستان اب سارے میچز جیتنے لگے گا، ملک سے باہر ہم مرضی کی پچز تو بنوا نہیں سکیں گے لہذا مسائل ہو سکتے ہیں، البتہ ساڑھے تین سال سے ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ نہ جیتنے کا جو جمود طاری تھا وہ ٹوٹ گیا۔
مسلسل شکستوں سے مایوس شائقین کو اب یہ آس ملی کہ ہماری ٹیم بھی جیت سکتی ہے، ہمیں خطرہ تھا کہ کہیں کرکٹ کا ہاکی والا حال نہ ہو جائے لیکن اب امید کی نئی کرن نظر آنے لگی ہے، یہ گورے پاکستان اور بھارت وغیرہ میں کھیل نہیں پاتے تھے، اسپن پچز پر ان کے سر چکرا جاتے تھے، بھارت میں آئی پی ایل کھیل کھیل کر انھیں پچز کا آئیڈیا ہو گیا، پاکستان میں ڈیڈ پچز بنانے کا رواج آنے کا حریف ٹیمیں فائدہ اٹھانے لگیں، رمیز راجہ جب چیئرمین بنے تو ہار سے بچنے کیلیے انھوں نے بے جان ٹریکس بنانے کی حمایت کی، اب وہ کہتے ہیں کہ ایسا بابر اعظم نے کہا تھا، آسٹریلیا سے کروڑوں روپے خرچ کر کے مٹی منگوائی گئی جو مٹی میں جا ملی۔
آپ نے کبھی سنا کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا نے یہ باتیں کی ہوں کہ ہم ایشیائی پچز پر پریشان ہوتے ہیں اس لیے ہمیں میلبورن، لارڈز یا پرتھ میں اسپن پچز بنانی چاہیئں، وہ اپنی قوت دیکھ کر پچ بناتے ہیں،ہم سے پوچھتے تھوڑی ہیں کہ ’’پائی ان تسی دسو کیڑی پچ بنائیں‘‘ ہم نے ایسا نہ کیا جس کی وجہ سے ہمارے پیسرز بھی ناکامیوں کا شکار ہونے لگے،اب پاکستان نے قوانین کے اندر رہتے ہوئے استعمال شدہ پچ پر دوسرا ٹیسٹ کرایا، اس پر انگلینڈ یا کسی اور کو اعتراض کا حق نہیں ہے، ہوم کنڈیشنز سے سب ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
عاقب جاوید نے ٹیم سے گروپنگ ختم کرنے کا بھی بیڑا اٹھایا ہے، اسٹار کھلاڑیوں کو ڈراپ کرنے سے سب کو یہ پیغام گیا کہ کوئی بھی ٹیم سے بڑا نہیں ہے، کسی کو بھی باہر کیا جا سکتا ہے، محسن نقوی نے عاقب جاوید کو سلیکشن کمیٹی میں لا کر ماسٹر اسٹروک کھیلا، پھر انھیں اختیارات دے کر اور اچھا کام کیا، اب فرنٹ سیٹ پر ’’پروفیسر‘‘ عاقب جاوید کمال دکھا رہے ہیں جس کے نتائج بھی سامنے آنے لگے،لاہور قلندرز نے پاکستان کو شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف جیسے کرکٹرز دیے، اب عاقب کی صورت میں ایک اچھا سلیکٹر بھی دے دیا، وہ فیئر انسان ہیں، لگی لپٹی نہیں رکھتے، پی سی بی کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے جو تنخواہ کا چیک نہیں کام کو ترجیح دیں۔
رمیز راجہ حال ہی میں ٹی وی پر باتیں کر رہے تھے کہ پاکستان میں کرکٹ صرف ایک سپراسٹار بابراعظم کی وجہ سے بکتی تھی، انھیں نکال دیا اب اسپانسرز کم ہو جائیں گے،راجہ صاحب ہمیشہ بابر کے پیچھے چھپتے رہے، اب بھی ان کے فینز کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں، کوئی شک نہیں کہ بابر سپراسٹار ہیں، وہ ٹیم میں جلد واپس بھی آ جائیں گے لیکن جو پرفارم کرے وہی بکتا ہے، اگر پاکستانی سائیڈ جیتتی رہی تو نئے کھلاڑی بھی اسٹار بنیں گے، ٹیم ایک نہیں11 کھلاڑیوں سے بنتی ہے، کرکٹ کو درست ٹریک پر لانے کے اقدامات شروع تو ہو گئے امید ہے یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا، پاکستان کرکٹ کی بقا کیلیے فتوحات بیحد ضروری ہیں۔