وفاقی بجٹ کا حجم 18 ہزار ارب روپے ہوگا
اسلام آباد: وفاقی حکومت کی جانب سے 18 ہزار ارب روپے کے لگ بھگ حجم پر مشتمل وفاقی بجٹ بدھ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا ، بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 سے15 فیصد تک اضافہ متوقع ہے جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 12.9 ٹریلین روپے مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق بجٹ میں سود اور قرضوں کی ادائیگیوں کا تخمینہ 9.5 ٹریلین روپے لگایا گیا ہے، توانائی کے شعبے میں سبسڈیز کیلیے 800 ارب روپے مختص کیے جانے اور وفاقی ٹیکس ریونیو 12.9 ٹریلین روپے کے لگ بھگ مقرر کئے جانے کا امکان ہے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ابتدائی تخمینہ 2100 ارب روپے لگایا گیا ہے اور پیٹرولیم لیوی کی مد میں 1050 ارب روپے سے زائد وصول کرنے کا ہدف متوقع ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ اگلے وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2024-25 میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کیلیے عمر کی حد بڑھا کر62 سال کرنے اور قومی خزانے پر پنشن بل کا بوجھ کم کرنے کیلیے جامع پنشن اصلاحات متعارف کروانے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔
پنشن اصلاحات کے تحت نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کیلیے بھارت کی طرز پر رضاکارانہ کنٹری بیوٹری پنشن سسٹم متعارف کروانے، ریٹائر ہونے والے ملازمین کو تاحیات کی بجائے 20 سال تک پنشن دینے ، ملازمین کی فیملی پنشن کی مدت 10 تا 15 سال اور بیٹی کی پنشن ختم کرنے اور کموٹیشن کم کیے جانے کا بھی امکان ہے۔
دوسری جانب آئندہ مالی سال 2024-25 کے وفاقی بجٹ میں دوہزار ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کرنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات پر 5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے،جی ایس ٹی کی معیاری شرح میں ایک فیصد اضافہ اور غیر ضروری ٹیکس چھوٹ ختم کرنے سمیت دیگر نئے ٹیکسز عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
پٹرولیم مصنوعات پر ابتدائی مرحلے میں 5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، پٹرولیم مصنوعات پر5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے سے تقریباً چھ سو ارب روپے کا ریونیو متوقع ہے۔
آئندہ مالی سال کے لیے فنانس بل میں تمام غیر ضروری سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی بھی تجویز ہے اور سیلز ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے سے تقریباً ساڑھے پانچ سو ارب روپے کی اضافی آمدن متوقع ہے، اس کے علاوہ بھی سات سو ارب روپے مزید حاصل کرنے کے لیے مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔
ذرائع کے مطابق اضافی ٹیکس ہدف پورا کرنے کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح مزید ایک فیصد بڑھنے کا امکان جس سے اربوں روپے کا اضافی ریونیو تو متوقع ہے تاہم اس سے مہنگائی بھی بڑھنے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے کچھ حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت بھی کی جارہی ہے جبکہ کمرشل درآمدکنندگان کے لیے درآمدی ڈیوٹیز کو ایک فیصد بڑھانے کی تجویز بھی زیرغور ہے۔
اسی طرح کمرشل درآمدکنندگان پرڈیوٹیز کی شرح بڑھانے سے 50 ارب روپے کی اضافی آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور یہی آئی ایم ایف مطالبات کررہا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے آئندہ مالی سال کا ٹیکس ہدف 12 ہزار 900 ارب روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کیلیے ایف بی آر کو 3 ہزار 490 ارب روپے کی زائد ٹیکس وصولی کرنا ہوگی، اسی طرح آئی ایم ایف نے انکم ٹیکس جمع کرانے والوں کی تعداد دوگنا کرکے یہ تعداد بڑھا کر 60 لاکھ سے زائد کرنے اور تاجروں کو ہر صورت انکم ٹیکس نیٹ میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ آئندہ سال کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کیلیے ہر طرح کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کیلیے زرعی اشیا، بیجوں، کھاد، ٹریکٹر اور دیگر آلات پر مکمل سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق خوراک، ادویات، اسٹیشنری پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے، و فاقی بجٹ 2024-25 میں ایس ایم ایز کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی سفارش کی گئی۔
ذرائع کے مطابق درآمدی سامان پر ٹیکس ڈیوٹیز بڑھانے سمیت بجٹ میں فوڈ آئٹم پر سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس، سیلز ٹیکس چھوٹ ختم، کسٹم ڈیوٹیز کی شرح بڑھانے کی تجاویز کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔