فیض میلہ 2024ء
بلاشبہ پاکستان عظیم ترین ملک ہے، اس دھرتی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں پر علامہ محمد اقبال اور فیض احمد فیض جیسی انقلابی اور سحر انگیز شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے انقلاب بھڑپا کر دیا۔
فیض احمد فیض نے اپنے شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں عقل وشعور اور فہم وفراست کا جو پودا لگایا تھا، وہ اب تناور درخت بن چکا ہے، فیض احمد فیض کی شخصیت کا بغور جائزہ لیا جائے توان کی شاعری نہ صرف بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھاتی ہے بلکہ مایوسیوں، تاریکیوں اور ناکامیوں میں گھرے ہوؤں کوامید کا راستہ بھی دکھاتی ہے، بلاشبہ فیض احمد فیض کی شاعری کی لطف و لذت انکی ذات اور زمانے کا پتہ دیتی ہے، ان کی شاعری میں قوم کا دل دھڑکتا ہے۔
فیض کی تخلیقات فطری، دلچسپ، انقلابی، فلسفیانہ و ترقی پسند تغیر سے مزین ہے۔فیض کی آواز اپنے عہد کی آواز بن چکی ہے اور ان کا کا م امر ہوچکا ہے۔
اردو کے عہد ساز اور انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی انقلابی شاعری کی تاریخ فیض کے تذکرے کے بغیرمکمل ہی نہیں ہوسکتی، فیض احمد فیض نے اپنی انقلابی فکراورعاشقانہ لہجے کو ملا کرایک ایسا انداز اپنایا جس سے اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ فیض احمد فیض کے سیاسی خیالات وافکارآفاقی ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری آج کی شاعری نظرآتی ہے۔ہر سال کی طرح اس بار بھی زندہ دلوں کے شہر لاہور میں فیض احمد فیض کا میلہ سجا، تین روز تک جاری رہنے والے فیسٹول میں پاکستان سمیت دْنیا بھر سے ہزاروں لوگ اس عظیم ڈائیلاگ سرگرمیوں کاحصہ بنے۔
میگا ایونٹ کے دوران ادیب و شاعر، دانشور، سکالرز و مندوبین معاشرے کو نئی جہتیں متعارف کروانے میں کامیاب رہے۔ افتتاحی تقریب میں پاکستان سمیت بین ممالک سے آنے والے مندوبین نے شرکت کی۔ ویمن آرٹسٹ آف پاکستان کے کام پر مبنی نمائش ’’دل ِنااْمید تو نہیں‘‘ میں 38 آرٹسٹوں کے 50 سے زائد فن پارے آویزاں کئے گئے۔نمائش کے افتتاح کے موقع پر فیض کا کلام پیش کیا گیا جسے حاضرین نے بے پناہ پسند کیا۔
افتتاحی تقریب میں ایگزیکٹوڈائریکٹر الحمراء طارق محمود چوہدری نے فیض فیسٹیول کے حسن کو دوبالا کرنے کے لئے الحمراء کے نمایاں کردار کو عیاں کیا۔ تقریب میں نامور آرٹسٹ سلیمہ ہاشمی، نامور آرٹسٹ ڈاکٹر مالیہ، اروند چمک،اویس بلا،اقبال فریدنے بھی اظہار خیال کیا۔
فیسٹول کے دوسرے روز الحمراء 30 سے زائد ادبی وثقافتی ڈائیلاگ منعقد ہوئے۔’’اْمید سحر‘‘ کے نام سے تقریب میں لعل بینڈ کی ٹیم نے پرفارم کیا۔ ’’ساز کی لْو تیز کرؤ‘‘ میں روحیل حیات اور علی نور سے توثیق حیدر نے فیض کی شاعری کے چراغ روشن کئے۔ ہجر کی راکھ،وصال کے پھول، جو رہی سو بے خبر رہی،اور راہی اپنی راہ لے،رْخ نگر نگر کا، ہم آگئے تو گرمی بازار دیکھنا، میں مقررین فیض کی شاعری درد مندی، دل آسائی و دل آویزی کی راز افشاں کئے۔
فیض کا لاہور،رومی فیض اور انسان دوستی،فیض ملامتی صوفی ویگر نشستوں میں مندوبین فیض کی فن و شخصیت کے درد وداغ، سوز و ساز، جستجو و آروز کی ترجمانی کی۔ تیسرے اور آخری دن 35 سے زائد نشستیں منعقد ہوئیں۔ نشست ’’آج تم یاد بے حساب آئے‘‘ میں عذرا محی الدین اور ارشد محمد نے قاسم جعفری سے گفتگو کی۔ سخن افتخار میں افتخار عارف سے سید شعمون ہاشمی نے ان کے خیالات معلوم کئے۔
لہو کا پرچم،داستاں ہے وہی،پردہ چشم پہ، پڑھنے والوں کے نام،گلستان سعدی کی کہانیاں، اْردو زبان کی خوشبو، فیض کا فیض، لاہور کہانی اور عشق، ورثہ نوجوان ہاتھوں میں، دھرتی کی ملکائیں، عشاق کے قافلے،کسے وکیل کریں، مہرو وفا کے باب، خورشید کوئی سر محفل کے نام سے مشاعرہ بھی منعقدہوا۔ورکشاپ، ڈاکومنٹری، اوپن مائیک، ڈرم سرکل، کتاب گاڑی بھی تقریبات کا حصہ تھیں۔
ساقیا! رقص کوئی رقص صبا کی صورت میں رقص پرفارمنس پیش کی گئی۔ فیسٹول کے آخری روزبھی فنکاروں کی جاندار اور شاندار پرفارمنس نے شائقین سے بھرپور داد سمیٹی۔ اس سے قبل شہریوں کا کہنا ہے کہ فیض فیسٹیول میں عوامی دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ انکی شاعری میں قوم کی قوم کا دل دھڑکتا ہے۔ فیض فیسٹیول کے دوران کتاب میلہ بھی شہریوں کا مرکز بنا رہا، تماشائی خوشگوار موسم کے ساتھ مزیدار کھانوں سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے۔
اگر فیض احمد فیض کی ابتدائی زندگی سے لے کر کامیابیوں کے سفرکی بات کی جائے تو نامور شاعر 13 فروری 1911 کو شاعر مشرق علامہ اقبال کے شہرسیالکوٹ میں پیدا ہوئے، تدریسی مراحل اپنے آبائی شہر اورلاہورمیں مکمل کیے، اپنے خیالات کی بنیاد پر 1936 میں ادبا ء کی ترقی پسند تحریک میں شامل ہوئے اور اسے بام عروج پربھی پہنچایا۔ درس و تدریس چھوڑ کردوسری جنگ عظیم میں انہوں نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیارکی لیکن بعد میں ایک بار پھرعلم کی روشنی پھیلانے لگے جوزندگی کے آخری روزتک جاری رہی۔
فیض کی شاعری کے انگریزی، جرمن، روسی، فرنچ سمیت مختلف زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں، ان کے مجموعہ کلام میں ’’نسخہ ہائے وفا‘‘، ’’نقش فریادی‘‘، ’’نقش وفا‘‘، ’’دست صبا‘‘، ’’دست تہہ سنگ‘‘، ’’سر وادی سینا‘‘، ’’زنداں نامہ‘‘ اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ کہتے ہیں کہ 1929ء میں مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کر لیا تو فیض کے والد نے مناسب سمجھا کہ انھیں لاہور کی جامعہ پنجاب سے ملحق گورنمنٹ کالج میں داخلے کے لیے بھیجا جائے۔گورنمنٹ کالج میں داخلہ ہوجانے کے بعد بھی فیض کی سخن گوئی کو مزید شہرت ملنا شروع ہو گئی۔ یہاں پطرس بخاری اور صوفی تبسم جیسے اساتذہ کی رہنمائی کام آئی۔
جنوری 1931ء میں گورنمنٹ کالج میں مشاعرہ منعقد ہوا تو موضوع ’’اقبال‘‘ کے تحت فیض نے اشعار پڑھے اوراِس کلام پر تحسین و آفرین پیش ہوئی اور یہ نظم کالج کے مجلہ ’’راوی‘‘ میں شائع بھی ہوئی۔یہ نظم سبط حسن کے پاس محفوظ تھی۔گورنمنٹ کالج لاہورسے 1931ء میں فیض نے بی اے کے ساتھ ساتھ عربی میں بی اے آنرز کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔ 1933ء میں انگریزی ادب میں ایم اے اور پھر 1934ء میں عربی زبان و اَدب میں بھی امتیاز کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
فیض اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایم اے کی ڈگری کے بعد انگلستان جاکر مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن اِس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی کیونکہ جن دِنوں وہ امرتسر میں مقیم تھے تو اِس سلسلے میں کچھ پیشرفت ہوئی تھی۔
1939ء کے وسط میں کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا اور ایک اطالوی بحری جہاز میں جگہ بھی مخصوص کروالی گئی تھی اور ٹکٹ تک خرید لیا تھا، ملبوسات تیار کروالیے گئے تھے، بس جہاز کی روانگی کا اِنتظار تھا، جہاز کے جانے میں ابھی کوئی دس دِن باقی تھے کہ خبر آئی کہ دوسری جنگِ عظیم شروع ہو چکی ہے اور ملک سے باہر آنے جانے کے سب راستے بند ہو چکے ہیں۔ https://bitcoinbetsport.com
اس طرح فیض دوسرے صاحبِ حیثیت لوگوں کی طرح اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے لئے ولایت پلٹ نہ بن سکے۔فیض احمد فیض وہ واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کی شاعری مجازی مسائل پر ہی محیط نہیں بلکہ انہوں نے حقیقی مسائل کو بھی موضوع بنایا۔فیض کی فلمی انڈسٹری کے لیے خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ان کا کلام محمد رفیع، ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، آشا بھوسلے اورجگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ جب کہ انہوں نے درجنوں فلموں کے لئے غزلیں، گیت اورمکالمے بھی لکھے۔
نامور شاعر فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے لیکن وہ فنی اور ادبی خدمات کی بنا پر اب بھی اپنے کروڑوں پرستاروں کے دلو ں میں زندہ ہیں۔