آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی لبریکینٹس کی من مانی قیمتیں، عوام اربوں روپے سے محروم
لاہور: پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور کمی پر تو فوری عملدرآمد ہوجاتا ہے مگر انجن گئیر اور بریک آئل سمیت دیگر لبریکینٹس کی قیمتوں میں صرف اضافہ ہی ہوتا ہے کمی نہیں کی جاتی
لبریکینٹس کی قیمتوں کا تعین اوگرا کے بجائے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس ہے جو اپنی من مانی قیمت مقرر کر کے عوام کو سالانہ اربوں روپے سے محروم کر رہی ہیں۔
وزرات پٹرولیم نے سال 2014 پندرہ میں انجن گئیر اور دیگر لبریکینٹ سمیت ہائی اوکٹین کی قیمتوں کا تعین کرنے کا اختیار اوگرا سے لیکر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے سپرد کر دیا تھا جس کے بعد سے آج تک یہی آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ان لبریکینٹ اور ہائی اوکٹین کی قیمتوں کا تعین کرتی آرہی ہیں۔
ایکسپریس نیوز کو ملنے والے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں مقامی اور امپورٹیڈ لبریکینٹ کی سالانہ کھپت 193 ملین سے لیکر 195 ملین لیٹرز سے زائد ہے جبکہ ماہانہ استعمال 16 سے 18 ملین لیٹرز سے زائد ہے۔
لاہور سمیت ملک بھر میں موٹرسائیکل کے انجن آئل کی قیمت 500 روپے سے لیکر ایک ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ گاڑی ٹرک کے انجن گئیر اور بریک آئل کی قیمت بھی ساڑے 3 ہزار سے لیکر ساڑے 7 ہزار روپے فی لیٹرز تک ہے۔
پٹرولیم ڈیلر ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل خواجہ عاطف کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے اپنی مرضی سے ریٹس بڑھا دیتے ہیں بلکہ بعض آئل کمپنیاں پٹرول پمپس مالکان کو زبردستی اپنے لبریکینٹ فروخت کرنے پر مجبور کرتی ہیں اگر لبریکینٹ نہ لیں تو پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی روک دیتی ہیں جبکہ پٹرول پمپس مالکان ایڈوانس میں ان کمپنیوں کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمت ادا کرتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ کمپنیاں بلیک میل کرتی ہیں اوگرا کو چاہیے یہ اختیارات آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے واپس لیکر از خود لبریکینٹ کی قیمتوں کا بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی طرح تعین کرے اور عوام کو اربوں روپے کی لوٹ مار سے بچایا جا سکے۔
اس حوالے سے آئل مارکیٹنگ کمپنیز ایسوسی ایشن کے چیئرمین طارق وزیر علی کا کہنا ہے کہ لبریکینٹ کی قیمتوں کے تعین کو ڈی ریگولیٹ کر دیا گیا تھا اور پندرہ روز کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے یا کمی کے حساب سے قیمتوں میں کمی نہیں کی جاسکتی یہ چیز انٹرنیشنل آئل مارکیٹ کے ساتھ منسلک ہے اس کی پیکنگ سے لیکر پراسسنگ تک کے بے شمار اخراجات ہوتے ہیں پھر یہ عام پٹرولیم مصنوعات کی طرح استعمال نہیں ہوتی کمپنیوں کے پاس ہزاروں لیٹرز اسٹاک پڑا ہوتا ہے اس لیے اس کی قیمتوں کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ساتھ جوڑا نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ پٹرول پمپس مالکان کو زبردستی لبریکینٹ کا اسٹاک رکھواتے ہیں بلکہ جس کمپنی کا پٹرول پمپ ہوتا ہے اس نے اسی کا لبریکینٹ بھی فروخت کرنا ہو تا ہے۔