حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ شہید
فلسطینی تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک شرپسندانہ حملے میں شہید کردیا گیا۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
اسماعیل ہنیہ غزہ سے متعلق عالمی سفارت میں ایک جارحانہ موقف رکھنے والی اعتدال پسند شخصیت تھے جن کی شہادت کے بعد عالمی سطح پر حماس کے کاز کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اسماعیل ہنیہ کے سخت بیانات کے باوجود کئی سفارت کاروں کے نزدیک وہ غزہ سے تعلق رکھنے والے سخت گیر رہنماؤں محمد دیف اور یحییٰ سنوار کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند تھے۔
تہران میں ہونے والی یہ کارروائی اسرائیل کی جانب سے بیروت میں حملے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آئی جہاں ایران کے حمایت یافتہ لبنانی گروہ اور سیاسی تحریک حزب اللہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ غزہ میں سفری پابندیوں کی وجہ سے اسماعیل ہنیہ ترکیہ اور قطر میں رہتے تھے اور غزہ جنگ کے بعد سے وہ مذاکرات کے سلسلے میں مصر بھی جاتے رہے ہیں۔ گزشتہ برس اکتوبر میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد اسماعیل ہنیہ نے نومبر میں تہران کا دورہ کیا تھا اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ سے ملاقات بھی کی تھی۔ اسماعیل ہنیہ حماس کےلیے عرب ملکوں کے ساتھ سیاسی جنگ کی قیادت کررہے تھے اور وہ حماس کا سیاسی اور سفارتی چہرہ تھے۔
اسماعیل ہنیہ غزہ کی اسلامک یونیورسٹی میں سرگرم طلبا تحریک کے رہنما تھے اور انہوں نے 1987 میں حماس کے قیام کے بعد اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ حماس میں شمولیت کے بعد اسرائیلی فورسز نے اسماعیل ہنیہ کو گرفتار بھی کیا تھا اور انہیں کچھ مدت کےلیے غزہ سے ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔ ابتدا میں اسماعیل ہنیہ چاہتے تھے کہ حماس سیاسی میدان میں قدم رکھے۔ 1994 میں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کی تشکیل حماس کو عالمی منظر نامے پر ابھرتی ہوئی تبدیلیوں سے نمٹنے کے قابل بنائے گا۔
اسماعیل ہنیہ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے بھرپور حامی تھے۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے 1994 میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ شیخ یاسین نوجوان فلسطینیوں کے رول ماڈل ہیں جن سے ہم نے اسلام سے محبت کرنا سیکھا ہے۔ حماس کے بانی بھی اسماعیل ہنیہ کے خاندان کو پسند کرتے ہیں جن کا تعلق ایشکلون کے قریب الجورا نامی گاؤں سے تھا۔ اسماعیل ہنیہ نے بہت جلد ہی شیخ یاسین کا اعتماد حاصل کرلیا تھا اور انہیں 2003 میں حماس کے سربراہ کا مشیر مقرر کیا گیا۔
2004 میں اسرائیلی حملے میں شیخ یاسین کی ہلاکت کے بعد حماس میں قیادت کے بحران نے جنم لیا۔ لیکن 2006 میں اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا کے بعد ہونے والے انتخابات میں حماس نے واضح برتری حاصل کی تو اسماعیل ہنیہ وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ اور اگلے ہی سال یعنی 2007 میں حماس نے غزہ کی پٹی کا مکمل کنٹرول سنبھالا۔
2012 میں جب اسماعیل ہنیہ سے پوچھا گیا کہ کیا حماس نے اپنی مسلح جدوجہد ترک کردی؟ جس کے جواب میں ہنیہ نے کہا تھا کہ یقیناً نہیں، مزاحمت سیاسی، سفارتی اور عسکری شکل میں جاری رہے گی۔
ایران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد حماس کے دیگر رہنماؤں کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ حماس کے رہنما سامی ابو زہری نے کہا ہے کہ ہم بیت المقدس کو آزاد کرانے کےلیے کھلی جنگ لڑ رہے ہیں، اور بیت المقدس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کےلیے تیار ہیں۔
پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کے ترجمان مہر الطاہر نے کہا ہے کہ دشمن اسرائیل تمام سرخ لکیروں کو عبور کرگیا ہے، اسرائیل نے معاملات کو ایک جامع جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے، مزاحمتی تنظیمیں جنگ کےلیے پوری طرح تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہید اسماعیل ہنیہ نے فلسطین کاز کےلیے اپنا سب سے قیمتی مال دیا، فلسطینی اپنے مقصد کے لیے ہر عزیز اور قیمتی چیز پیش کرنے کو تیار ہیں۔ انھوں نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت اسماعیل ہنیہ کے قتل اور ایرانی خودمختاری پر حملے کے گناہ پر پچھتائے گی، شہید اسماعیل ہنیہ کا قتل امریکی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ ہم ہنیہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم جدوجہد اور مزاحمت جاری رکھیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ اسرائیلی مظالم کے سامنے سینہ سپر ہوئے فلسطینیوں کا عزم بے پناہ قربانیوں کے بعد کم نہیں ہوا۔ بے شک اسماعیل ہنیہ شہید ہوچکے ہیں، لیکن آزادی کی یہ تحریک جاری رہے گی اور اسرائیلی مظالم کے خاتمے تک فلسیطینی پسپا نہیں ہوں گے۔ فلسطینیوں کے آہنی عزم کو شکست نہیں دی جاسکتی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔