کھیل

قومی ٹیم کی کپتانی؛ سابق کرکٹر کا طویل المدتی پالیسی اپنانے پر زور

قومی ٹیم کے سابق بالنگ کوچ ثقلین مشتاق نے کپتانی کی حوالے سے طویل المدتی پالیسی اپنانے پر زور دیدیا۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو انگلینڈ سے خصوصی انٹرویو میں سابق عظیم اسپنر و کوچ ثقلین مشتاق نے کہا کہ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ بابر اعظم کو کپتانی چھوڑ دینی چاہیے، یہ سب باہر کی آوازیں ہیں،ان کو نہیں سننا چاہیے، اندر بیٹھے لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ کون ایسا ہے جو قائدانہ صلاحیتوں کا حامل ہونے کے ساتھ ٹیم کے تمام پلیئرز کو بھی ساتھ لے کر چل سکتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں کہ لانگ، مڈ یا شارٹ ٹرم کے لیے کپتان بنانا ہے، ہم صرف کل کو دیکھتے ہیں کہ اسیقیادت سونپ دو،پلیئرز بھی اس کشمکش کا شکار رہتے ہیں کہ کل ٹیم کا حصہ بھی رہیں گے یا نہیں، ہمارے پاس لانگ ٹرم کے پلان بالکل نہیں ہوتے، شاہین شاہ آفریدی شارٹ ٹرم کے لیے کپتان بنے،پھر ہٹا دیا گیا،اب بابر اعظم کو اگر ایک ہی ورلڈ کپ کے بعد آپ تبدیل کریں گے تو اس کی جگہ پھر کوئی کپتان آ جائے گا،ان حالات میں آپ کسی کو بھی قیادت سونپ دیں فرق نہیں پڑے گا، تجربات کو بھی وقت دینا پڑتا ہے، بابر کو ہٹانے سے کیا اور مسئلے مسائل پیدا نہیں ہوں گے؟ انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کرکٹ کا کوئی نظام ہے نہ ہی کسی نے بنانے کیلیے کوشش کی۔
مزید پڑھیں: بھارتی ٹیم کو پاکستان لانا آئی سی سی کی ذمہ داری قرار

کب تک شارٹ ویڑن سسٹم چلتا رہے گا،اگر شاہین آفریدی کے بعد اب بابر اعظم کو بھی کپتانی سے ہٹا دیا جاتا ہے توپھر تیسرا،اس کے بعد چوتھا اور پھر پانچواں ٹیم لیڈر بنے گا،اگر اس طرح ہی یہ سلسلہ چلتا رہا تو کبھی ہماری ٹیم ٹاپ لیول کی نہیں بن سکے گی۔ ثقلین مشتاق نے کہاکہ چیئرمین پی سی بی کا کپتانی کے حوالے سے فیصلے کرنا میری سمجھ سے بالاتر ہے،آپ آتے ہی کپتان کو ہٹا دیں یہ چیئرمین کا کام نہیں ہوتا، اس کے لیے ماہرین موجود ہوتے ہیں جنھیں اندازہ ہو کہ ٹیم میں بہترین پلیئرزکون ہیں، کس کھلاڑی میں قائدانہ صلاحیتیں ہیں اور کون نتائج بھی دے رہا ہے۔

شاداب سے ذہنی پختگی کے حوالے سے بات کرتا ہوں

ثقلین مشتاق نے کہا کہ شاداب خان میرا داماد ضرور ہے لیکن میرے لیے تمام کھلاڑی ایک جیسے ہیں،اگرکوئی بھی مجھ سے مشورہ مانگے توضرور دوں گا،میں اپنے بچوں کے لیے 24 گھنٹے حاضر ہوں۔شاداب کو میں کیا مشورہ دوں یہ پی سی بی میں بیٹھے کوچز کا کام ہے کہ بتائیں کیا ٹیکنیکل چیزیں چل رہی ہیں، میں کچھ کہوں اور اندر والے کچھ اوربات کہیں اس صورتحال سے شاداب کنفیوڑ ہو جائے گا، میری ان سے جب کبھی ملاقات ہو تو ذہنی پختگی کے حوالے سے ضرور بات کرتا ہوں، انٹرنیشنل کرکٹ میں کرکٹنگ امور سے زیادہ ذہنی طور پر پختہ ہونا ضروری ہے۔

نیوزی لینڈ ٹیم کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ کوچ 2 بار بھارت جاؤں گا

ثقلین مشتاق نے کہا کہ میں نیوزی لینڈ کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ کوچ کام کر رہا ہوں، بھارت میں کیویز کا ایک میچ افغانستان کے ساتھ ہے میں وہاں جاؤں گا، ہماری اگلی منزل سری لنکا ہے وہاں 2 ٹیسٹ ہوں گے، پھر ہم واپس بھارت آ کرمیزبان سائیڈ کے خلاف 3 ٹیسٹ کھیلیں گے، اس طرح میں6 میچز میں نیوزی لینڈ ٹیم کے ساتھ بطور کنسلسٹنٹ کوچ فرائض سرانجام دوں گا، انگلینڈ میں بھی کوئی بلائے تو بطور کنسلٹنٹ کام کرتے رہتا ہوں۔

مزید پڑھیں: چیمپئنز ٹرافی 2025؛ پاکستان بھی ٹورنامنٹ کروانے کی میزبانی کیلئے ڈٹ گیا

انھوں نے کہا کہ میں پہلے بھی پاکستانی تھا اب بھی ہوں، بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں انگلینڈ میں موجود ہوں، میرا دل پاکستان میں ہی رہتا ہوں، میرا ملک میں آنا جانا رہتا ہے، 3،4 ماہ کے لیے جاتا، رشتہ داروں سے ملنے کے بعد واپس چلا جاتا ہوں، بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا، اس لیے انگلینڈ آنا پڑتا ہے۔

ثقلین نے اسپنرز کے قحط کی وجوہات بیان کر دیں

ثقلین مشتاق نے ملک میں اسپنرز کے قحط کی وجوہات بیان کر دیں، انھوں نے کہا کہ جب بورڈ نے مجھے سعید اجمل کا بولنگ ایکشن درست کرانے کیلیے بلایا تو وہاں 30 دیگر فنگر اسپنرز بھی موجود تھے جنھیں پی سی بی کے مقامی کوچز نے چکنگ کا مرتکب قرار دیا تھا،میرا ایک ماہ کا معاہدہ تھا،مجھ سے ان نوجوان پلیئرز کا ایکشن ٹھیک کرانے کی بھی درخواست کی گئی، میں صبح اور شام کے سیشنز میں سعید اجمل کے ساتھ ہوتا تھا، پھر بھی درمیان میں وقت نکال کر ان بولرز کی رہنمائی پر تیار ہوگیا اور ایک ہفتہ ان کے ساتھ لگایا، میں نے این سی اے اور پی سی بی حکام سے کہا کہ ان بولرز کے ساتھ مزید کام کرنا چاہیے لیکن مجھے کہا گیا کہ ان سب کو 15 ڈگری سے زائد کے ایکشن کا حامل قرار دے کر واپس بھیج دو، میں نے کہا کہ غریب بچے بے روزگار ہو جائیں گے، ان کے ڈپارٹمنٹس وغیرہ انھیں چھوڑ دیں گے، ان کے گھر کا نظام خراب ہو جائے گا لیکن مجھے کہاگیا ان کو چھوڑو ہمارے پاس وقت نہیں ہے، یوں یہ سب پلیئرز واپس چلے گئے، پھر میں سعید اجمل کے ساتھ ایک ماہ لگا کر واپس چلا گیا۔

مزید پڑھیں: انٹرنیشنل میڈیا رائٹس: پی سی بی کی توقعات پھر پوری نہ ہوسکی

میں نے حکام سے کہا کہ اب پاکستان کے دیگر فنگر اسپنرز بھی روایتی بولرز بن جائیں گے اور کچھ الگ کرنا چھوڑ دیں گے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ تب سے کسی آف اسپنر یالیفٹ آرم اسپنر نے ویری ایشنز پر کام کرنا چھوڑ دیا اور سیدھی سیدھی بولنگ شروع کر دی، تب سے ہمیں جادوئی صلاحیتوں کا حامل کوئی بولر نہیں ملا، پورے ملک میں نفسیاتی بلاک آ گیا اور کسی بچے نے کچھ نیا کرنے کا نہیں سوچا،ملک میں کوئی اسپن بولنگ کوچ بھی نہیں تھا۔اس کے بعد بھی پی سی بی نے کبھی اچھے اسپنرز کی تلاش کے لیے کیمپ لگانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی، حکام میں سے کسی نے نہیں کہا کہ آؤ اسپنر کیمپ لگاتے ہیں،میں 2 بار آسٹریلیا گیا دونوں بار انھوں نے اسپنرز کمیپس لگائے،پہلی بار شین وارن جبکہ دوسری بار میک گل کو بھی میرے ساتھ بلایا، ان کیمپس میں تمام کوچز بھی آئے تھے، میں پاکستان میں کہتا رہا لیکن کچھ نہیں ہوا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button