اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطینی ریاست کے قیام کیخلاف قرارداد منظور
تل ابیب: اسرائیل کی پارلیمنٹ (کنیسٹ) میں فلسطین دشمنی پر مبنی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی جس کے حق میں 69 ارکان نے ووٹ دیا جب کہ صرف 9 نے مخالفت کی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق قرارداد پر رائے شماری کے وقت اپوزیشن لیڈر اور سابق نگراں وزیر اعظم یائر لیپڈ کی سینٹرل لیفٹ پارٹی کے ارکان سیشن چھوڑ کر چلے گئے تھے اس کے باوجود کہ ان کی جماعت دو ریاستی حل کے حق میں ہے۔
پارلیمنٹ میں منظور کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ اور خطے میں عدم استحکام کا باعث ہوگا۔ایسی کسی بھی ریاست کے قیام سے اسرائیل فلسطین تنازع کو ہوا ملے گی۔خیال رہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ ’’کنیسٹ‘‘ اس سے قبل بھی فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کرچکی ہے۔
فلسطین اتھارٹی کے حسین الشیخ نے سوشل میڈیا پر قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کی اس قرارداد کی منظوری سے صیہونی ریاست کی نسل پرستی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی تصدیق کرتا ہے۔
حسین الشیخ نے مزید کہا کہ قرارداد کی منظوری کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل فلسطین پر اپنے ناجائز قبضے کو ہمیشہ کے لیے برقرار رکھنے کی پالیسی پر بضد ہے۔
اسی طرح فلسطینی جماعت کے سیکرٹری جنرل مصطفیٰ برغوتی نے قرارداد کی منظوری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کسی ایک بھی رکن نے قرارداد کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ جس سے ان کی نیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اردن کی وزارت خارجہ نے کہا کہ قرارداد کی منظوری بین الاقوامی قانون کی “خطرناک” خلاف ورزی ہے۔
یاد رہے کہ 1993 میں اوسلو معاہدے پر پہلی بار فلسطینی اور اسرائیلی رہنماؤں کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس میں ایک قابلِ عمل اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تاہم اسرائیل نے ہمیشہ ہی اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مغربی کنارے میں فلسطینی اراضی پر یہودی آبادکاری اور غزہ کی مسلسل ناکہ بندی جاری رکھی ہوئی ہے۔