اسٹیٹ بینک کی مارکیٹ سے ریکارڈ 4.2 ارب ڈالر کی خریداری
اسلام آباد: مرکزی بینک نے رواں مالی سال کے دوران اب تک مارکیٹ سے ریکارڈ 4.2 ارب ڈالر سے زائد کی خریداری کی جو ملکی سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر کا نصف اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بیل آؤٹ پیکیج کے حجم سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
مرکزی بینک کی مداخلت نے جہاں بھاری قرضوں کی ادائیگیوں کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر کو 8 ارب ڈالر پر مستحکم رکھا وہیں اس نے روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں 278 روپے پر بھی کم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان مداخلتوں کی عدم موجودگی میں ڈالر کے مقابلے میں قدر 250 روپے سے کم ہونی چاہیے تھی۔مرکزی بینک غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت کے بارے میں سوالات کا جواب دینے سے گریز کرتا ہے۔ اس نے انٹر بینک مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر مداخلت کو چھپا کر رکھا جس میں کم از کم 4.2 بلین ڈالر خریدنے کے لیے 1.1 ٹریلین روپے سے زیادہ کے لین دین شامل ہیں۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ مرکزی بینک کی خریداری 3 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کے حجم سے کہیں زیادہ ہو۔
آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کی ایک وجہ اضافی قرضے حاصل کرنا اور ذخائر میں اضافہ کرنا بھی تھا تاہم اب تک ملک کو 9.7 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے مل چکے ہیں جو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھے۔
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور ریونیو اینڈ ریسورس موبلائزیشن کمیشن کے سابق چیئرمین اشفاق یوسف ٹولا نے کہا کہ مرکزی بینک کی خریداری کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 40 سے 45 روپے کی کمی واقع ہوئی، اس سے مہنگائی میں بھی کم از کم 5 فیصد اضافہ ہوا۔
انھوں نے کہا کہ یہ حکومت کے مفاد میں ہے کہ وہ مارکیٹ میں مداخلت ختم کرکے روپے اور ڈالر کی حقیقی برابری کو 235 روپے تک لائے۔ افراط زر کی شرح میں 5 فیصد کمی سے شرح سود میں کمی لانے میں بھی مدد ملے گی، تاہم حکام کی جوابی دلیل یہ ہے کہ اگر مرکزی بینک نے ڈالر نہ خریدے ہوتے تو زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر ساڑھے 3ارب ڈالر رہ جاتے جس سے مزید مہنگائی ہوتی۔
اشفاق تولہ نے کہا کہ روپے کی قدر 278 روپے تک کم ہونے کا مطلب ہے کہ برآمد کنندگان کو ان کی برآمدی آمدنی کے ہر ڈالر کے مقابلے میں 35 سے 45 روپے زیادہ مل رہے ہیں۔پاکستان ایک بار پھر کم از کم 6 ارب ڈالر کے نئے آئی ایم ایف پروگرام کا خواہاں ہے اور مرکزی بینک کی 10 ماہ سے بھی کم عرصے میں خریداری تین سالہ پروگرام کے حجم کے 70 فیصد کے برابر ہے۔
مارکیٹ میں مرکزی بینک کی مداخلت کی ایک وجہ وزارت خزانہ کی جانب سے یورو بانڈز اور غیر ملکی تجارتی قرضوں کی وجہ سے 6 ارب ڈالر کی آمد کو یقینی بنانے میں ناکامی تھی۔
اقتصادی امور ڈویژن اور مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران 9.7 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے حاصل کیے جو سالانہ بجٹ تخمینے کا 50 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ رئیل ایفیکٹیو ایکسچینج ریٹ (آر ای ای آر) جو کئی غیر ملکی کرنسیوں کے وزنی اوسط کے مقابلے میں ایک کرنسی کی قدر کا پیمانہ ہے، مارچ 2024 میں بڑھ کر 104.07 ہو گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی نہیں ہوئی۔