رواں سال کپاس کی مقامی کاشت میں غیر معمولی کمی کا خدشہ
کراچی: غیرموافق موسمی حالات، نہری پانی کی کمی اور حکومت کی عدم توجہی کے باعث رواں سال کپاس کی مقامی کاشت میں غیر معمولی کمی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے جس سے روئی کے ساتھ بھاری مالیت کے خوردنی تیل کی درآمدات کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔
پاور ٹیرف میں مسلسل اضافے سے ٹیکسٹائل ملوں کی سرگرمیاں محدود ہونے جیسے عوامل کاٹن انڈسٹری کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔ ان عوامل کے باعث کاٹن سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرز خصوصاً کاشت کاروں میں تشویش کی لہر پائی جارہی ہے۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ کاٹن ایئر2023-24 کے دوران پنجاب میں تقریباً 50لاکھ ایکڑ جبکہ سندھ میں تقریباً 14لاکھ 50ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت کی گئی تھی جس سے مجموعی طور پر روئی کی 84لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ کپاس کی پیداوار ہوئی تھی جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق یہ پیداوار ایک کروڑ گانٹھ کے لگ بھگ تھی۔
انھوں نے بتایا کہ رواں سال حیران کن طور پر وفاقی حکومت نے کئی دہائیوں بعد نہ تو کپاس کا کوئی مجموعی قومی پیداوار اور کاشت کے اہداف مقرر کیے ہیں اور نہ ہی کپاس کی امدادی یا مداخلتی قیمت مقرر کی ہے یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ بین الاقوامی منڈیوں میں روئی کی قیمتوں میں غیر معمولی مندی کے باعث بعض پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان نے بیرون ملک سے روئی خریداری کے ایڈوانس سودے شروع کر دیے ہیں۔