اعظم سواتی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
پشاور: اعظم سواتی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف دائر درخواست پر دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اعظم سواتی کی جانب سے دائر کی گئی اپیل پر سماعت الیکشن ٹربیونل کے جج جسٹس شکیل احمد نے کی، جس نے عدالت نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پر آپ کے کاغذات مسترد ہوئے ، جس پر اعظم سواتی کے وکیل بیرسٹر وقار احمد نے بتایا کہ اعتراض کنندہ 3 ہیں، 2 ایسے ہیں جو الیکشن میں امیدوار نہیں۔
وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایک اعتراض یہ ہے کہ اعظم سواتی نے اپنے خلاف درج مقدمات کی تفصیل فراہم نہیں کی اور این اے 15 میں عام انتخابات میں بھی ا نہوں نے یہ فراہم نہیں کی تھی۔ وکیل کے مطابق عام انتخابات کے بعد اعظم سواتی نے ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کیں ، جس پر انہیں مقدمات کی تفصیل فراہم کی گئی، جس کے بعد ہم نے سینیٹ الیکشن کے کاغذات میں تفصیل فراہم کی ہے۔
اعظم سواتی کے وکیل نے کہا کہ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر اعتراض لگایا گیا ہے کہ آپ اس کے لیے اہل نہیں ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ آپ کا تجربہ نہیں ہے جب کہ درخواست گزار 18 سال سینیٹ کے ممبر رہے ہیں، 2 بار ٹیکنوکریٹ اور ایک بار جنرل نشست پر۔ 2006 سے 2012 تک ٹیکنوکریٹ کے لیے اہل تھے اور 2024 میں اہل نہیں ہیں؟۔ درخواست گزار سینیٹ میں مختلف کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے، ججز کمیٹی کے رکن بھی رہے ہیں۔
جسٹس شکیل احمد نے اعترض کنندہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ ٹیکنوکریٹ کے لیے 16 سال کی تعلیم اور 20 سال کا تجربہ لازمی ہے۔ یہ سینیٹ کے ممبر رہے ہیں اور مختلف کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے ہیں، انہوں نے قانون سازی میں حصہ بھی لیا ہے، اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟
وکیلِ اعتراض کنندہ نے عدالت کو بتایا کہ سینیٹ کے ممبر رہے ہیں تو یہ کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے ہوں گے۔ جو بھی ممبر ہوا ہے وہ کمیٹیوں کا بھی ممبر ہوتا ہے۔جب ایک شخص غلط بیانی کرتا ہے تو اس پر نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے خلاف 2 کیسز درج تھے، اس میں ضمانت پر تھے اس کا بھی ذکر نہیں کیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ غلط بیانی ایک شخص کس لیے کرتا ہے، وہ کوئی فائدہ لینا چاہتا ہے۔ اگر یہ حلف میں کہتے کہ میرے خلاف کوئی کیسز نہیں ہیں تو پھر بات ہوتی۔ وکیل اعتراض کنندہ نے عدالت کو بتایا کہ انہیں جن مقدمات کا پتا تھا وہ بھی مینشن نہیں کیے گئے، یہ غلط بیانی کی ہے۔
بعد ازاں الیکشن ٹریبونل نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔