آئی ایم ایف نے پی آئی اے، حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا پلان طلب کرلیا
اسلام آباد: عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے قومی ایئر لائن (پی آئی اے) اور حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری پر پلان طلب کر لیا جبکہ وفاق کے پاس این ایف سی کے تحت فنڈز کو ناکافی قرار دیتے ہوئے نظرثانی کا مطالبہ بھی کر دیا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف جائزہ مشن کے درمیان قلیل مدتی قرض پروگرام کے جائزہ مذاکرات کا دوسرا روز جاری ہے جس میں آئی ایم ایف جائزہ مشن کو پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بینکوں اور حکومت کے درمیان قرض ٹرم شیٹ پر بریفنگ دی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے لیے کمرشل بینکوں کے ساتھ 12 فیصد تک شرح سود پر ٹرم شیٹ ایگریمنٹ ہوگا اور کمرشل بینکوں کے ساتھ قرض ٹرم شیٹ معاہدہ طے پائے جانے پر بینکوں سے این او سی ملے گا۔
حکومتی گارنٹیز سمیت ہیلتھ اور ایجوکیشن سیکٹر کے اخراجات پر بریفنگ دی جائے گی۔ ٹیکس پالیسی، ایڈمنسٹریشن اور ریونیو پر ایف بی آر کے وفد کے ساتھ مذاکرات ہوں گے جبکہ توانائی شعبے کے گردشی قرض اور پاور پرچیز ایگریمنٹ پر وزارت توانائی حکام مذاکرات کریں گے۔
توانائی شعبے کا گردشی قرضہ کم، ایڈجسمنٹس بروقت اور ٹیرف بڑھانے، مالیاتی خسارہ کنٹرول کرنے اور آئندہ وفاقی بجٹ کے لیے حکمت عملی پر بھی بات چیت ہوگی۔ آئی ایم ایف وفد توانائی سیکٹر کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔
این ایف سی
آئی ایم ایف نے وفاق کے پاس این ایف سی کے تحت فنڈز کو ناکافی قرار دیتے ہوئے نظرثانی کا مطالبہ بھی کر دیا۔
پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم میں جاری عدم توازن کو دور کرنے کے لیے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ پر نظر ثانی کرے۔
ٹیکس آمدنی کا پلان آئی ایم ایف کو پیش
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ٹیکس آمدنی کا پلان آئی ایم ایف کو پیش کر دیا جس میں جائزہ مشن کو آگاہ کیا گیا کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھا کر محصولات کو بڑھایا جا رہا ہے اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے ٹیکس نیٹ بڑھانے پر کام کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق تقریباً 31 لاکھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے پلان بنایا گیا ہے، ایف بی آر کو ری اسٹرکچر اور اسٹرکچرل تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔ آئی ایم ایف کو رواں مالی سال کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کے اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستانی ٹیم اور آئی ایم ایف کے درمیان قلیل مدتی قرض پروگرام کے جائزہ مذاکرات کا پہلا سیشن مکمل ہوگیا تھا۔ اسٹینڈ بائے ارینجمنٹ (ایس بی اے) پر دوسری نظرِ ثانی کے لیے وزارت خزانہ میں ہونے والے اس سیشن میں آئی ایم ایف وفد کی قیادت نیتھن پورٹر نے کی۔
مذاکرات کے پہلے دور کے اختتام پر آئی ایم ایف نے نئے پروگرام کے لیے حکومت سے مزید اقدامات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو بجلی اور گیس کے گردشی قرض منجمد رکھنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔
آئی ایم ایف نے فرٹیلائزر پلانٹس کو سستی گیس کی فراہمی ختم کرنے اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا مطالبہ بھی کر رکھا ہے۔ وزیر خزانہ محمداورنگزیب نے عالمی بینک سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اصلاحات اور سیلاب زدہ علاقوں کے لیے قرض جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔