کیوں نا قاسم سوری کے خلاف سنگین غداری کی کارروائی کی جائے، چیف جسٹس
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نااہلی کیس میں قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
عدالت نے قاسم سوری کو اپنے دستخط کے ساتھ خود جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ سے بھی جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے قاسم سوری کی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کیس کی سماعت کی۔
لشکری رئیسانی کے وکیل نے دلائل دیے کہ قاسم سوری غیر قانونی طور پر عہدے پر براجمان رہے، انہوں نے اسٹے پر عہدہ انجوائے کیا اور ان سے مراعات اور فوائد واپس لینے چاہئیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے قاسم سوری کے وکیل سے کہا کہ قاسم سوری ملک میں آئینی بحران کی وجہ بنے، ان کے بارے میں یہ تجویز دی گئی کہ آئین شکنی کی کارروائی کی جائے، کیوں نہ قاسم سوری کیخلاف آئین شکنی کی کارروائی کریں۔
وکیل نعیم بخاری نے بتایا کہ قاسم سوری کا مقدمہ دیگر کیسز کےساتھ عدالت نے یکجا کر دیا تھا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکم امتناع لینے کے بعد مقدمہ سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں کرنے دیا گیا، سپریم کورٹ کے اندرونی سسٹم کیساتھ ہیراپھیری کی گئی، کونسا مقدمہ لگنا ہے کونسا نہیں سپریم کورٹ میں پہنچنے والے لمبے ہاتھ ختم کر رہے ہیں، مقدمات کیسے یکجا کرائے جاتے ہیں معلوم ہے 1982 سے وکیل ہوں، مقدمہ کیسے یکجا ہوا اور اتنا عرصہ مقرر کیوں نہ ہوا اپنی انکوائری بھی کرینگے، سپریم کورٹ استعمال ہوٸی تواسے ٹھیک کرنا ہوگا، یہ صرف ہمارا ادارہ نہیں سب کا ادارہ ہے، اسکی تباہی صرف ہماری نہیں سب کی تباہی ہے، جب اسمبلی تحلیل کی گئی کیا آپ اس وقت بھی حکم امتناع پر تھے؟
وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ جی اس وقت حکم امتناع پر تھے، میری نظر میں تو قاسم سوری کی نااہلی اور ان کے حلقے میں دوبارہ انتخابات کا معاملہ اب غیر مؤثر ہو چکا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قاسم سوری نے حکم امتناع لے کر پوری اسمبلی کو انجوائے کیا، اب کہہ رہے ہیں اسمبلی ختم تو کیس غیر مؤثر ہوگیا، کیا آپ نے سپریم کورٹ میں مقدمہ نہ لگوانے کیلئے کوئی حربہ استعمال کیا؟سپریم کورٹ میں جو ہاتھ گھس گئے ہیں کونسا مقدمہ لگے کونسا نہیں یہ سب اب ہم روک رہے ہیں، اگر کچھ غلط ہوا تھا تو 2018 کا پورا الیکشن نکال کر دیکھیں گے، یہ نہیں ہو سکتا کہ عہدہ انجوائے کیا اور چلے گئے، قاسم سوری نے استعفی کب دیا؟
وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ قاسم سوری نے 16 اپریل 2022 کو استعفا دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ قاسم سوری نے غیر قانونی طور پر اسمبلی توڑی، ان کے بارے میں پانچ رکنی بنچ کے فیصلے میں آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کی کارروائی کی تجویز دی گئی، کیوں نا قاسم سوری کے خلاف سنگین غداری کی کارروائی کی جائے، جس کسی نے بھی آئین کی خلاف ورزی کی اس کو نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔
سپریم کورٹ نے قاسم سوری کا کیس مقرر نا ہونے اور اسٹے برقرار رہنے پر رجسٹرار کو نوٹس کرتے ہوئے تین ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی اور قاسم خان سوری کے حریف لشکری رئیسانی کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔
عدالت نے رجسٹرار آفس کو تین ہفتوں میں انکوائری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ بعد تک ملتوی کردی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی انتخابی کامیابی کالعدم
یاد رہے کہ 2018ء کے انتخابات میں این اے 265 میں قاسم سوری پر دھاندلی سے الیکشن جیتنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
بی این پی کے لشکری رئیسانی نے اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی این اے 265 سے کامیابی کو چیلنج کرتے ہوئے حلقہ میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے درخواست دائر کی تھی، جس پر الیکشن ٹربیونل نے الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ قاسم سوری نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔
اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن ٹریبیونل کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے انہیں ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر بحال کردیا تھا اور ری الیکشن کے خلاف حکم امتناع جاری کیا تھا۔