اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کے معاملے پر محفوظ فیصلہ سنا دیا، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کردی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، اسے مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں۔ الیکشن کمیشن کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور رجسٹرڈ سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور نہ بروقت ترجیحی فرہست جمع کرائی، ترجیحی فہرست جمع نہ کرانے سے عیاں ہوتا ہے کہ سنی اتحاد کونسل الیکشن لڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی اور نہ ہی اسے مخصوص نشستیں چاہیے تھیں۔ اعلیٰ عدالتیں اصول طے کر چکی ہیں کہ سیاسی جماعتیں بروقت ترجیحی فہرست جمع کرائیں گی، ترجیحی فہرست جمع نہ کرانا ناقابل علاج عیب ہے جسے کسی بھی حالت میں درست نہیں کیا جا سکتا۔ فیصلے کے مطابق آئین یا قانون میں ایسی کوئی شق نہیں جس کے تحت الیکشن شیڈول ختم ہونے کے بعد نئی ترجیحی فہرست جمع کرائی جا سکے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ محض کامیاب آزاد امیدواروں کے کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے سے اس سیاسی جماعت کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں۔ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے دیگر جماعتوں کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں ان کی سیٹوں کے تناسب سے تقسیم کی جائیں گی، اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں۔ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ متفقہ طور پرسنایا گیا تاہم مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کے فیصلے سے ممبر پنجاب بابر حسن بھروانہ نے اختلاف کیا۔ سنی اتحاد کونسل 75 نشستوں سے محروم الیکشن کمیشن کے فیصلے کے نتیجے میں سنی اتحاد کونسل قومی وصوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر75نشستوں سے محروم ہو گئی ہے۔ سنی اتحاد کونسل کو قومی اسمبلی کی 23،پنجاب اسمبلی کی24، خیبرپختونخوا اسمبلی کی 25اور سندھ اسمبلی کی3مخصوص نشستیں ملنا تھیں۔
اسلام آباد: سینیٹ میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کی شدید مذمت کی گئی اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ پر زور دیا گیا۔
سینیٹ کا اجلاس مرزا آفریدی کی زیرصدارت ہوا جس میں سینیٹر بہرہ مند تنگی نے سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کی اپنی قرارداد واپس لے لی۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی کی سوشل میڈیا کے نوجوان نسل پر منفی اثرات سے متعلق قرار داد ایوان بالا کے ایجنڈے میں شامل تھی۔اجلاس میں 29فروری کو اسرائیلی فوج کی جانب سے خوراک کیلئے جمع فلسطینیوں کے قتل عام کیخلاف مذمتی قرارداد پیش کی گئی۔
سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ امداد لینے کیلئے جانے والوں پر فضائی بمباری انتہائی قابل مذمت ہے، مسلمان ممالک کو چاہیے کہ مظلوم فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے کیلئے اپنی اپنی ایئر فورسز کے ذریعے کم ازکم ائیر سیفٹی ہی فراہم کردیں۔
سینیٹر پلوشہ نے کہا کہ فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی پر اسلامی ممالک کو شرم آنی چاہئے، اللہ کرے تیل کی دولت سے مالا مال مسلمان ممالک کے تیل کے کنویں خشک ہوجائیں کیونکہ وہ فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دے رہے، اسرائیل کیخلاف عملی اقدامات اٹھانا چاہئیں۔
سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے اور ہم خاموش ہیں، پاکستان میں اس ایشو پر مظاہرے ہوئے تو ان پر لاٹھی چارج ہوجاتا ہے، ہمیں اب قراردادوں سے آگے نکلنا ہوگا، ہمیں جاگنے کیلئے اور کتنی لاشیں چاہئیں۔
سینیٹر کامران نے کہا کہ اسرائیل کی مذمت ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے، ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے، جو لوگ پارٹیوں کی سطح پر حماس سے ملے ہیں ان کیلئے پاکستان کی زمین بھی تنگ کی جارہی ہے، ان کیلئے پاکستان میں بھی مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔
سینیٹر عون عباس کا کہنا تھا کہ امریکی حکام خود کہہ رہے ہیں کہ فلسطینی گھاس کھانے پر مجبور ہیں، ہمیں اگر فلسطینیوں کی مدد کرنی ہے تو آئیے اس ایوان میں امریکہ کی مذمت کی قرارداد منظور کرتے ہیں۔
سینیٹر خالدہ خطیب نے کہا کہ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔
سینیٹر تاج نے کہا کہ پہلے جب جنگ ہوئی تھی تو بھٹو نے اپنی ائیر فورس وہاں بھیجی تھی اور فلسطینیوں کو ائیر کور دیا تھا، لیکن اس کے بعد بھٹو کو پاکستان میں اسرائیلی ایجنٹوں نے قتل کردیا۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ ان قراردادوں سے کچھ نہیں ملے گا، وقت آگیا ہے کہ ائیر فورس کو کہا جائے۔
سینیٹر کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے فلسطین سے محبت کی جدوجہد کو پاکستان میں زندہ رکھا ہوا ہے ، سراج الحق اس معاملے پر خراج تحسین کے مستحق ہیں، کم ازکم ہم یہودیوں کی اشیاء کا پاکستان میں بائیکاٹ کریں۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ میں تجویز کرتا ہوں تمام سینیٹرز اپنی ایک مہینے کی تنخواہ فلسطینیوں کیلئے وقف کریں۔
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اسرائیلی کمپنیاں جو فلسطین جنگ میں مدد کررہی ہیں ان کا بائیکاٹ ہونا چاہئے، عربوں کو شرم کرنی چاہئے، الخدمت فاؤنڈیشن کے سربراہ قاہرہ میں ہیں، شہباز شریف حکومت ہمیں سہولت دے ہم وہاں جاکر ان بچوں کو لانا چاہتے ہیں، ہم تمام سینیٹرز جاکر امریکی سفارتخانے کے سامنے جاکر احتجاج کریں، سیاسی جماعتیں اور پوری عوام امریکی سفارتخانے کے باہر دھرنا دیں، پاکستان ترکی مل کر ایک فلوٹیلا بنائیں اور سامان فلسطین بھیجیں۔
سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ ہمیں کے ایف سی، میکڈونلڈ سمیت اسرائیلی مصنوعات کا سختی سے بائیکاٹ کرنا چاہئے۔