بزنس

عطیہ خداوندی پاکستان کی قدر کیجیے

پاکستان کو آزادی حاصل کیے 77 سال بیت چکے ہیں اور ان بیتے ہوئے برسوں میں نشیب و فراز کے باوجود پاکستان نے دنیا بھر میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ گو کہ ہمارے ملک میں جمہوریت اُس طرح پنپ نہیں سکی لیکن اس کے باوجود ہمارا ملک پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کے نقشے پر چمک رہا ہے۔

ہمارے ملک کی ترقی شاید دنیا کے بیشتر ممالک کو کھٹکتی ہے، اس لیے وہ ہمارے ملک کے خلاف اس طرح کے منفی پروپیگنڈے میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ ان تمام کٹھنائیوں، مشکلات اور مصائب کے باوجود پاکستان نے پون صدی کا سفر پوری شدومد کے ساتھ طے کرتے ہوئے ان تمام ملک دشمنوں کی پیش گوئیوں کو ناکام بنادیا جو کہتے تھے کہ پاکستان کبھی سروائیو نہیں کرسکے گا اور جلد ہی اسے دوبارہ ہندوستان کے ساتھ شامل ہونا پڑے گا۔ خیر یہ تمام باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں اور آج مخالف بھی ہمارے ملک کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔

ہمارا ملک پاکستان میں رہنے والوں کےلیے عطیہ خداوندی ہے جسے قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقا کاروں نے ایک حقیقت کے طور پر اس ملک کے باسیوں کو انعام کے طور پر دیا۔ جو لوگ اس تحریک سے جڑے تھے اور جو ابھی تک حیات ہیں، انہوں نے اور اُن کے عزیز و اقارب نے آزادی کی جو قیمت چکائی ہے اس کو لفظوں میں بیان کرنا انتہائی مشکل ہے۔

تاریخی اعداد و شمار کے مطابق کم وبیش 20 لاکھ سے زائد مردوں، عورتوں، جوانوں اور بچوں نے اپنی زندگی اس آزادی کی خاطر تیاگ دی۔ اپنے گھر بار، مال مویشی، زندگی بھر کی پونجی اپنے آزاد وطن کی خاطر قربان کر دی۔ لڑکیوں نے اپنی عصمتیں لٹنے کے ڈر سے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا۔ غرض ایک قیامت کا تجربہ آزادی حاصل کرنے کےلیے اُس وقت کے لوگوں نے صرف اور صرف اس جذبے کے تحت کیا کہ وہ اپنے آزاد ملک میں جارہے ہیں۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں جب آپ ان دونوں ممالک کے بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملتے دیکھتے ہیں یا اپنے آبائی گھروں کو ایک مدت کے بعد دیکھتے ہیں تو وہ جو کیفیت ہوتی ہے اُس کو دیکھ کر ہر آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے۔ جب کوئی بچھڑے ہوئے بہن بھائی ایک عرصے کے بعد ملتے ہیں تو اُن کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کتابوں، ناولوں، افسانوں، ڈراموں اور فلموں کے ذریعے ان کہانیوں کو منظر عام پر لا چکا ہے اور آج بھی قارئین اور ناظرین ان کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔

آزادی کی داستانوں کو عام کرنے کےلیے ریاست اور حکومت کی ذمے داری ہے کہ ماہ اگست میں آزادی کے حوالے سے خصوصی مہم شروع کرے اور ان داستانوں کو نیون سائن، پینا فلیکس اور بینرز کے ذریعے مشتہر کیا جائے۔ آزادی میں شہید ہونے والے اُن تمام ہیروز کو عوام سے روشناس کرایا جائے۔ آزادی کے حوالے سے ریڈیو، ٹیلی ویژن کےلیے خصوصی پروگرامز منعقد کیے جائیں اور خاص طور پر آزادی کے حوالے سے سوشل میڈیا مہم چلائی جائے اور سوشل میڈیا کے ہر چینل پر آزادی کی ان داستانوں کو نوجوانوں تک پہنچایا جائے۔

حکومت کا اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور خاص طور پر مدارس میں آزادی کے حوالے سے پروگرامز منعقد کرنے چاہئیں۔ آزادی کے ہیروز اور آزادی کی داستانوں کے متعلق بتایا جائے۔ سینما گھروں میں آزادی سے متعلق فلموں کے مفت شوز کا انعقاد کیا جائے۔ اور ملک کو پروان چڑھانے میں جن لوگوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر جدوجہد کی ہے اُن سے متعلق بھی عوام کو آگاہی دی جائے۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں اقلیتوں کے کردا ر کو بھی تفصیل سے بیان کیا جائے تاکہ نئی نسل اقلیتوں کے حوالے سے کسی ابہام کا شکار نہ ہو۔ آزادی کے دن خصوصی پمفلٹس اور بروشرز کو نئی نسل تک پہنچایا جائے تاکہ آزادی کی اہمیت کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کیا جاسکے۔

پچھلے کچھ برسوں کا اگر ہم آزادی کے دن کا مشاہدہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ نوجوانوں کےلیے یہ دن صرف اور صرف شور شرابے اور غل غپاڑے کا دن ہے۔ ماہ اگست شروع ہوتے ہی مارکیٹوں اور دکانوں میں چھوٹے بڑے باجے اور شور کرنے والے دیگر لوازمات آجاتے ہیں اور نوجوان صرف اس بے ہنگم شور اور طوفان بدتمیزی کو ہی آزادی سمجھتے ہیں۔ آپ جشن آزادی ضرور منائیے لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ آپ کے اس عمل سے کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچ رہی۔ آپ کے اس شور شرابے سے کسی مریض اور بیمار کو مشکل تو نہیں ہورہی۔ ایسا لگتا ہے کہ نوجوانوں کو اُس دن اِس طوفان بدتمیزی کو اٹھانے کی ہی آزادی ملتی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ نوجوان آزادی کا جشن نہ منائیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے آباؤاجداد کی اُن قربانیوں کو ضرور یاد رکھیں جو قیام پاکستان کے وقت انہوں نے دی تھیں۔

آج ہمارا ملک یقیناً ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ ہمارا ملک رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ گو پچھلے کچھ برسوں سے ہم مشکل صورتحال سے ضرور گزر رہے ہیں لیکن یہ مشکلات قیام پاکستان کے وقت کی مشکلات سے یقیناً کم ہیں اور اگر ہم نے ایک قوم کی حیثیت سے اُس وقت دنیا میں اپنے آپ کو منوا لیا تھا تو اب تو ہمارے پاس نفرااسٹرکچر، افرادی قوت اور بہترین صلاحیتوں پر مشتمل پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افراد ملک کے ہر شعبے میں موجود ہیں، تو اب ہم کیونکر اس مشکل صورتحال سے نہ نکل سکیں گے۔

آئیے اس یوم آزادی پر ہم ایک دوسرے سے عہد کریں کہ بلا تفریق ایک ہوکر اس مشکل صورتحال سے اپنے ملک کو نکالیں گے اور دنیا کو دکھا دیں گے کہ ہم زندہ قوم ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button