بزنس

چینی پاور پلانٹس کے بقایا واجبات کم کرنے کیلیے بلٹ ادائیگی کا فیصلہ

اسلام آباد: وزیر اعظم کی بیجنگ روانگی کے موقع پر پاکستان نے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کیلیے فنانسنگ اور 600 ملین ڈالر کا تجارتی قرضہ حاصل کرنے کیلیے چینی پاور پلانٹس کے بقایا واجبات کم کرنے کیلیے بلٹ ادائیگی کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق وزارت توانائی 70 ارب روپے کی ادائیگیوں پر کارروائی کر رہی ہے حالانکہ وزیراعظم آفس کم از کم 150 ارب روپے کی ادائیگیاں کرنا چاہتا ہے۔

وزارت خزانہ نے بجٹ میں دی گئی سبسڈیز میں سے وزارت توانائی کو 225 ارب روپے جاری کئے جس کا مقصد چینی پاور پلانٹس کو ادائیگیوں کیلیے زیادہ سے زیادہ گنجائش فراہم کرنا ہے تاہم اضافی فنڈز نہیں دیے گئے اور توقع تھی وزارت توانائی منظور شدہ حد میں رہتے ہوئے جگہ پیدا کرے گی۔وزارت توانائی کے اہلکار نے صرف 70 ارب کی ادائیگیوں کی تصدیق کی۔

وزارت خزانہ نے کے الیکٹرک کے بقایا جات کی مد میں 70 ارب، سبسڈی کے پیشگی دعووں کی مد میں 100 ارب اور آزاد جموں و کشمیر سبسڈی کی مد میں مزید 55 ارب جاری کیے ،چند روز قبل ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف نے خواہش ظاہر کی کہ چینی پاور پلانٹس کو کم از کم 150 ارب روپے جاری کئے جائیں۔ اپریل کے آخر تک اقتصادی راہداری کے تحت لگائے گئے چینی پاور پلانٹس کے بقایاجات 506 ارب روپے یا 1.8 ارب ڈالر تھے۔

بیجنگ کے دورے کے بعد نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے وزیراعظم شہباز شریف کو مشورہ دیا تھاکہ اب سے جولائی تک چینی آئی پی پیز کے کم از کم 200 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی کی جائے۔یہ رقم نائب وزیراعظم اور وزیر اعظم کی مداخلت پر جاری کی جا رہی ہے۔

وزارت خزانہ نے پہلے ہی عالمی مالیاتی فنڈ کو آگاہ کر دیا تھا کہ اس کے پاس سی پیک کے آئی پی پیز کو دستیاب مالیاتی جگہ سے زیادہ رقم جاری کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

وزیراعظم آج سے شروع ہونے والے دورے کے دوران سی پیک کے مین لائن ون منصوبے، کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور قراقرم ہائی وے کی توسیع پر ٹھوس پیش رفت کے خواہشمند تھے۔ بیجنگ سے 600 ملین ڈالر کا تجارتی قرضہ ملنے کی امید ہے، جسے چینی حکام نے پاکستان کی جانب سے توانائی کے فریم ورک معاہدے پر عمل نہ کرنے پر دینے سے انکار کر دیا تھا۔

رواں سال جنوری میں چین نے 600 ملین ڈالر کے نئے غیر ملکی تجارتی قرض کی منظوری پہلے سے طے شدہ معاہدے سے جوڑ دی،جس کے تحت چینی پاور پلانٹس کا قرضہ دیناہے۔پاکستان انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا اور بینک آف چائنا سے 600 ملین ڈالر کا قرض مانگ رہا ہے۔

سی پیک کے انرجی فریم ورک ایگریمنٹ کے تحت، پاکستان نے بجلی کی ادائیگیوں کیلئے تیار کردہ انوائسز کے 21 فیصد کے برابر رقم جمع کرنے کا عہد کیا تھا۔ یہ وہ رقم ہے جسے پاکستانی حکام جمع کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس سے شعبہ توانائی کے گشتی قرضے میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ انتظام چینی فرموں کو گردشی قرضوں سے بچانے کیلئے کیا گیالیکن پاکستان نے فنڈ قائم کرنے کے بجائے اکتوبر 2022 ء میں اسٹیٹ بینک میں پاکستان انرجی ریوالونگ اکاؤنٹ کھولا جس میں 48 ارب روپے سالانہ مختص کئے گئے، جس میں زیادہ سے زیادہ 4 ارب روپے ماہانہ نکالنے کی شرط تھی۔اس کے نتیجے میں چینی آئی پی پیز کا قرضہ اب 500 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔

70 ارب روپے میں سے سی پیک کے تھر کول منصوبے کواہم حصہ ادا کیا جا رہا ہے۔بہت زیادہ واجبات کی وجہ سے، چینی انشورنس کمپنی M/s Sinosure بھی پاکستان میں توانائی کے منصوبوں کو نیا قرضہ نہیں دے رہی،جس کے باعث کوہالہ ہائیڈرو پاور اور آزاد پتن ہائیڈرو پاور منصوبے متاثر ہوئے ہیں۔

ذرائع نے بتایا چینی حکام کے ساتھ حالیہ بات چیت کے دوران پاکستان نے ان دو پن بجلی منصوبوں پر پیش رفت ظاہر کرنے کی درخواست کی تاہم، چینی حکام نے احتیاط سے آگے بڑھنے پر زور دیا۔وزیر اعظم نے دورے سے ٹھوس نتائج حاصل کرنے کیلئے دو پاور پلانٹس کی فہرست دی ہے۔

وزیر اعظم 1,726 کلومیٹر طویل 6.7 ارب ڈالر کے سی پیک کے مین لائن-I منصوبے کی تعمیر کے معاہدے پر بھی دستخط کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق چینی حکام نے پاکستان کو مشورہ دیا وہ پہلے صرف 182 کلومیٹر طویل کراچی، حیدرآباد سیکشن پر تعمیراتی کام شروع کرے۔اس کی نظرثانی شدہ لاگت اب 1.1 ارب ڈالر ہے جسے چین اور پاکستان دونوں مل کر برداشت سکتے ہیں۔

کراچی حیدرآباد سیکشن اصل ڈیزائن کے مطابق تعمیر کیا جائے گا یعنی مکمل باڑ لگانے کے ساتھ سپیڈ 160 کلومیٹر فی گھنٹہ، باقی ٹریک کے برعکس جہاں رفتار کم کر کے 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کر دیا گیا ہے اور باڑ لگانا ختم کر دیا گیا ہے تاکہ لاگت بچائیں۔چین نے ماضی میں پاکستان کے مجموعی عوامی قرضوں کے عدم استحکام اور سی پیک کے مین لائن-I ریلوے منصوبے کیلئے 6 ارب ڈالر کے نئے قرضے کیلئے اس کے مضمرات کا معاملہ اٹھایا تھا۔

ذرائع نے بتایا پاکستانی حکام بھی کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں جیسے رائے کوٹ تھاکوٹ کے قراقرم ہائی وے سیکشن پر 2 ارب ڈالر پیش رفت ہوگی۔ چینی حکام نے منصوبے کے طریقہ کار پر کام کرنے کیلئے کچھ وقت مانگا۔انہوں نے مزید کہا چین نے گوادر کو بجلی فراہم کرنے اور بندرگاہی شہر کو تجارتی طور پر فعال بنانے کا کہاہے۔

سی پیک کے زیور گوادر کی بجلی فراہم کرنے کیلئے ایران سے پاکستان بجلی درآمد کرتا ہے۔ توقع ہے وزیر اعظم چینی قیادت کو یقین دہانی کرائیں گے مستقبل میں بشام والا واقعہ پیش نہیں آئے گا، جس میں پانچ چینی قوم مارے جائیں گے۔ چینی تحفظ کیلئے آگے بڑھنے کی وجہ سے گوگل ٹرانسلیٹ میں کھولیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button