رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں معاشی حالات بہترہوئے، اسٹیٹ بینک
کراچی: بینک دولت پاکستان نے مالی سال 24ء کی پہلی ششماہی رپورٹ بعنوان’’ پاکستانی معیشت کی کیفیت ‘‘ جاری کردی جس کے مطابق ملک کے معاشی حالات مالی سال 24ء کی پہلی ششماہی کے دوران بہتر ہوئے ہیں۔
رپورٹ جولائی تا دسمبر مالی سال 24ء کے اعدادوشمار کے تجزیے پر مشتمل ہے جس کے مطابق حقیقی اقتصادی سرگرمیوں میں گذشتہ سال کے سکڑاؤ کے برعکس معتدل بحال ہوئی جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ عارضی انتظام (ایس بی اے) نے بیرونی کھاتے پر دباؤ کم کرنے میں مدد دی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سخت زری اور مالیاتی پالیسیوں کے تسلسل، زرعی پیداوار میں بہتری اور اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے جاری کھاتے کے خسارے میں خاصی کمی آئی۔
مالیاتی پہلو سے مالی سال 24ء کی پہلی ششماہی کے دوران بنیادی توازن مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں زائد سرپلس رہا جس کی وجہ ٹیکس اور نان ٹیکس دونوں آمدنیوں میں ایسی معقول نمو تھی جو غیر سودی اخراجات کی بڑھوتری سے بھی زیادہ تھی۔ رپورٹ کے مطابق ملکی طلب محدود رہنے کے باوجود مہنگائی کا دباؤ بلند سطح پر برقرار رہا۔
مالی سال 24ء کی پہلی ششماہی کے دوران زرعی شعبے کی وجہ سے حقیقی جی ڈی پی میں 1.7 فیصد نمو ہوئی۔ شعبہ زراعت میں بحالی سے زرعی اساس والی کچھ صنعتوں کو بھی مدد ملی۔ مزید برآں، رپورٹ کے مطابق درآمدات کو محدود کرنے والے اقدامات کے خاتمے سے صنعت کے لیے خام مال کی دستیابی بہتر ہوئی۔
آئی ایم ایف کے ایس بی اے کی منظوری سے بیرونی قرض گیری کی رکاوٹیں کم ہوئیں جس سے مالی سال 24ء کی پہلی ششماہی کے دوران مالی رقوم کی آمد میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں زیرِ جائزہ مدت کے دوران بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کم رہیں نیز درآمدات میں کمی کے ساتھ ساتھ برآمدات بڑھنے کی وجہ سے جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں کمی آئی جس سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محدود ملکی طلب اور اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کے باوجود قومی صارف اشاریہ قیمت (این سی پی آئی) مہنگائی بلند رہنے کے اسباب دیرینہ ساختی مسائل، مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، حکومتی اخراجات میں اضافہ اور رسدی دھچکے تھے۔
مالی سال 24ء کی پہلی ششماہی کے دوران قوزی مہنگائی برقرار رہنے کے اسباب میں خام مال کی بلند لاگت، بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ، اور مالی سال 24ء کے بجٹ میں اعلان کردہ کم از کم اجرت میں اضافے پر عملدرآمد کے علاوہ غذا اور توانائی کی اشیا کی سرکاری قیمتوں کے دورِ ثانی کے اثرات شامل تھے۔
رپورٹ میں یہ بات اجاگر کی گئی کہ معاشی اظہاریوں میں کچھ بہتری کے باوجود، معیشت کو بدستور ساختی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ جو بڑے مسائل درپیش ہیں ان میں محدود بچتیں، طبعی اور انسانی سرمائے میں پست سرمایہ کاری، پست پیداواریت، جمود کا شکار برآمدات، ٹیکس دہندگان کی کم تعداد، اورسرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کی نا کارکردگی شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کے باعث معاشی پالیسیوں میں عدم تسلسل، کمزور نظم و نسق اور سرکاری انتظام، سرمایہ کاری میں رکاوٹیں پیدا ہونے کے سبب صورتِ حال مزید خراب ہوگئی، جس نے معاشی ترقی کو گہنادیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وسط تا طویل مدتی پائیدار ترقی یقینی بنانے کے لیے پالیسی اصلاحات کی جائیں۔
رپورٹ میں ایک خصوصی باب شامل ہے، جو پاکستان میں مہنگائی کے طویل مدتی رجحانات اور اس کے عوامل کے تجزیے پر مشتمل ہے۔ اس باب میں مہنگائی پر اثرانداز ہونے والے پالیسی اور ساختی عوامل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں زری پالیسی فریم ورک، مالیاتی اور قرضہ جاتی پالیسی، تجارتی کشادگی، زرعی کارکردگی، پیداواریت اور آبادیاتی رجحانات شامل ہیں۔
اس باب میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سیاسی اور پالیسی کی غیر یقینی صورتِ حال میں بہتری لاکر اور مزید مالیاتی یکجائی سے قلیل مدت میں مہنگائی کو تیزی سے کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ وسط مدت میں مہنگائی کو کم اور مستحکم کرنے کے لیے زری پالیسی پر بوجھ ڈالے بغیر اور ،نتیجتاً بلند معاشی قیمت چکائے بغیر دیرینہ ساختی مسائل حل کرنے پر بھی اس باب میں زور دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں مالی سال 24ء کی دوسری ششماہی کے دوران معیشت میں معمولی بحالی کا سلسلہ جاری رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ کاروباری اداروں کے اعتماد ، نومبر 2023ء کے بعد سے بلند تعدد والے طلب کے اظہاریوں اور مالی سال 24ء کے دوران گندم کی اچھی پیداوار کے امکانات میں بہتری کے تناظر میں اسٹیٹ بینک نے مالی سال 24ء کی حقیقی جی ڈی پی نمو 2 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔
دوسری جانب ملکی معیشت اور اجناس کی بین الاقوامی منڈی دونوں میں غیر یقینی صورتِ حال برقرار رہنے کے باوجود قومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی میں کمی کا سلسلہ جاری رہنے کی توقع ہے۔
ان تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے مالی سال 24ء کے لیے اوسط قومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی 23.0 سے 25.0 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو مالی سال 23ء کے 29.2 فیصد کے مقابلے میں کم ہے اور ستمبر 2025ء تک اس کے مزید کم ہو کر 5 سے 7 فیصد تک آنے کی توقع ہے۔
بیرونی کھاتوں کے معاملے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سابقہ تخمینوں سے کم رہنے کا امکان ہے جس کی وجہ عالمی منظر نامے میں معمولی بہتری اور ملکی نمو کے امکانات ہیں جن کے نتائج برآمدات اور ترسیلات زر کے ذریعے زرمبادلہ کی آمدنی میں اضافے کی صورت میں نکل سکتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے مالی سال 24ء کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0.5 سے 1.5 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ یہ معاشی منظر نامہ بڑھتے ہوئے جغرافیائی و سیاسی تناؤ، غیر موافق موسمی حالات، تیل کی عالمی قیمتوں میں منفی رد و بدل کے زیر اثر رہے گا اور ان عوامل کے نتیجے میں بیرونی کھاتوں پر دباؤ پڑتا ہے۔
ششماہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں مزید رد و بدل اور مالیاتی یکجائی ، جو قرضوں میں اضافے کی رفتار کو سست کرنے کے لیے ضروری ہے، معاشی سرگرمیوں اور مہنگائی پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔