کیا خواتین کو ’صنف نازک‘ کہہ کر پکارنا ان کی ہتک ہے۔۔۔؟
صنف نازک‘ کے حقوق کی بات کرنے والے بہت سے لوگ شاید نادانستگی میں بہت سے ایسے کام جو خواتین نے پہلی بار کیے یا اب تک نہیں کیے تھے، وہ جب ان کے تذکرے کرتے ہیں، تو اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انھیں نہ کرنے کی وجہ سے عورت یا لڑکی زندگی میں پیچھے رہ گئی ہے۔۔۔؟ یا اس میں کوئی کمی رہ گئی ہے؟ ہر چند کہ ان کا مقصد خواتین اور بچیوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور سراہنا ہوتا ہے، لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی تو نکلتا ہے کہ ہم جسے ستائش کہہ رہے ہیں، وہ ہماری اس فکر کی عکاسی کر رہا ہے کہ عورت ابھی تک سماج میں اس لیے پس ماندہ تھی کہ اس نے فلاں فلاں کام نہیں کیے تھے اور یہ عمل انجام نہیں دیا تھایا اور کوئی معرکہ سر نہیں کیا تھا۔
آپ کو ہمارے اس نکتے سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن ہم خود بھی انھی صفحات پر بہتیری تحریریں اور انٹرویو وغیرہ ایسے کرتے آئے ہیں، جس میں حوصلہ افزائی اور ستائش ہی کی خاطر یہ سب کرتے ہیں، لیکن اگر غور کیجیے، تو اس کا ایک پہلو یہ بھی بن رہا ہے کہ جیسے مردوں کے سماج نے گویا برابری کے لیے غیر اعلانیہ طور پر اپنا کا کوئی پیمانہ طے کیا ہو اہے کہ جب تک عورت وہ ذمہ داری ادا نہ کرے گی، گویا مرد سے پیچھے رہے گی، یا سماج میں اس کے شانہ بہ شانہ نہیں ہو سکے گی؟
اسی عام سی مثل کو دیکھ لیجیے کہ والدین اپنی بیٹی کو یہ کہتے ہیں کہ ’’یہ میری بیٹی نہیں، بلکہ میرا بیٹا ہے۔۔۔!‘‘ کیا اس فخر کے پس منظر میں ہمارا وہ مشترکہ المیہ نہیں جھلک رہا کہ جیسے بیٹی کوئی کم تر مخلوق ہوتی ہے، یا اگر وہ بیٹوں کا سا کردار ادا نہیں کرے گی، تو اس کے رتبے اور مقام میں کوئی کمی رہ جائے گی۔
اسی طرح ایک جگہ جب ہم نے خواتین کو ’صنف نازک‘ کہا تو وہاں یہ سوال اٹھایا گیا کہ ’صنف نازک‘ کہنا تو خواتین کی ہتک ہے۔۔۔! کیوں کہ عورت کو ’نازک‘ کہہ کر دراصل اسے کمزور بتایا گیا ہے۔ یہ واقعہ ایسا تھا کہ جس نے اس نئے اور قابل توجہ زاویے اور اندازِ فکر کو نمایاں کر دیا۔ شاید نئے ماحول اور مختلف ذرایع سے پیش کیے جانے والے اِبلاغی مواد کی وجہ سے اب ایسے ’نت نئے سوالات‘ سامنے لائے جا رہے ہیں، جس میں ایسے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ اب ظاہر ہے، ہمیں تو اس بات کا جواب دینا ہے، اور دراصل اسی سوال کا جواب دینے کے لیے ہم نے یہ تمہید بھی باندھی ہے۔
چوں کہ فی زمانہ ’سائنسی طرزِ فکر‘ کو زیادہ معتبر اور اہم گردانا جاتا ہے، اور لوگوں کی باقاعدہ ایسی ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ جس میں باقاعدہ روایات اور عقائد کو دقیانوسی اور جہالت کہہ کر بہ یک جنبش قلم رد کر دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے سماج میں بہت سے حوالوں سے پس ماندگی اور تنگ نظری موجود ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مغرب یا جدید ذرایع سے باقاعدہ ہدف بنا کر جو مخصوص نظریات و افکار ہمیں ترقی اور روشن خیالی کے نام پر دکھائے، سنائے اور پڑھائے جا رہے ہیں، وہ سب کے سب اور مِن وعَن آنکھ بند کر کے قبول کر لیے جائیں؟ یقیناً اس پہلو پر اہل دانش کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ’ردعمل کی جذباتیت‘ سے آگے بڑھیں اور غیر جانب داری سے ایسے ’جدید‘ نظریات کی پرکھ کریں اور ان کے پس پشت مفادات اور پنہاں مقاصد سے پہلو تہی نہ کریں، کہیں نا دانستگی میںآپ ایسی ہی قوتوں کے سہولت کار نہ بن جائیں، جن کے طرز عمل پر اکثر تنقید کرتے ہیں۔
خیر، ہم اپنے موضوع کی سمت واپس آتے ہیں کہ کیا خواتین کو ’صنف نازک‘ کہنا ان کی ہتک ہے۔۔۔؟ اور کیا انھیں ’نازک‘ کہہ دینا خواتین کو ادھورا یا کمزور ثابت کرنا ہے۔۔۔؟ ہمارے خیال میں بات کرنے والے نے خوب سوچ سمجھ کر ہمارے نظریات ہی نہیں، بلکہ ہمارے اندازِ تخاطب سے لے کر روزمرہ، محاورے اور لسانی تراکیب تک سبھی کو اپنی نظر میں رکھا ہے۔ تبھی تو ’صنف نازک‘ جو صرف خواتین کا مترادف ہے، ایسے نشانہ بنا ڈالا اور اس پر ایسا بنیادی اور تیکنیکی سوالیہ نشان لگا دیا گیا کہ جواب دیے بنا بات بنتی نہیں ہے۔ تو جناب محرکات کچھ بھی ہوں، ہمارے خیال میں اس کا جواب تو یہی ہے کہ ’صنف نازک‘ کہنے میں قطعی طور پر کوئی ہتک، کم تری یا توہین کا پہلو موجود نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ ’نازک‘ ہونے کو ’کمزوری‘ سے کیوں تعبیر کیا جائے۔۔۔؟ یہ کس نے کہا کہ ’نزاکت‘ کا مطلب کم تری یا ادھورا ہونا ہے۔۔۔؟ گویا بہ ظاہر مرد سے باغی کرنے والے گروہ نے یہاں بھی پیمانہ مرد کی مضبوطی اور کرخت ہونے کو طاقت یا تکمیلیتسے تعبیر کر کے خود ہی اپنے معیار پر سوال کھڑا کر دیا کہ آخر کیوں مرد کے کرخت تاثر کو بہتر اور عورت کے ’صنف نازک‘ ہونے کو کم ترسمجھا گیا۔۔۔؟ بنیادی طور پر تو یہ تاثر ہی غلط ہے، کیوں کہ قدرت نے انسانوں اور جانوروں میں ہی نہیں، نباتات تک میں اصنافی تفریق رکھی ہے، یعنی سب میں مذکر اور مونث کا سلسلہ ہے۔
اب یہ خالص سائنس کی بات ہے، نہ اس میں کسی مذہب کا کوئی دوش ہے، نہ ہی یہ کسی قدیم روایت کا بیان ہے اور نہ کسی سماج کی عطا۔ اس لیے اس ’سائنسی حقیقت‘ کو تو ماننا ہی پڑے گا کہ یہ فطری نظام کو آگے بڑھانے کا ایک طریقہ ہے کہ اس نے انسانوں میں بھی دو اصناف رکھے ہیں اور اسے نسل انسانی کی بقا کا ذریعہ بنایا ہے۔ تو جب یہ فرق قدرتی نظام میں بنیاد کے طور پر موجود ہے، تو اس فرق سے کسی بھی طرح کا صرف نظر کرنا ہی غلط طرز عمل اور قطعی غیر منطقی انداز ہوگا۔
ہم دنیا میں بہت سی چیزیں استعمال کرتے ہیں، بہت سی چیزوں سے بطور خوراک بھی استفادہ کرتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر چیز کی خصوصیات دوسرے سے جدا ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر چائے یا کافی وغیرہ عموماً گرما گرم ہی پسند کی جاتی ہیں، جب کہ شربت اور جوس ٹھنڈے۔ جیسے قلفی اگر ذرا سی بھی پگھل جائے تو وہ تو قلفی ہی نہیں رہتی۔ ایسے ہی روئی اور ٹشو پیپر نرم اور ملائم درکار ہوتے ہیں، گتے اور بُکرم کے لیے کرختگی کا اپنا تقاضا ہے، مختلف کپڑے کے نرم اور کرخت ہونے کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں۔ یعنی ہر چیز کی خصوصیات اس کی ضرورت اور کردار کی مناسبت سے ہوتی ہے۔
یہ خصوصیات اس قدر ناگزیر سمجھی جاتی ہیں کہ اگر ان میں کمی بیشی ہو تو خوبی یا خامی کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں، بالکل ایسے ہی نہ مرد کی ’مردانگی‘ کوئی ایسا کمال ہے کہ جس پر وہ اپنی گردن اکڑائے پھرے، نہ ہی خواتین کی ’نسوانیت‘ بھی کوئی کمزوری کی بات ہے۔ مرد کے کردار کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسا ہی نظر آئے، اگرچہ اس کے لباس اور چال ڈھال بھی سماج نے طے کی ہوتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ فطری طور پر اس کی جسمانی ساخت اور کردار کو بھی اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اسی طرح خواتین کا معاملہ بھی ہے، فطرت نے اسے کسی بھی طرح ’کمزور‘ یا ’کم تر‘ نہیں بنایا۔ عورت ٹینک نہ چلائے اور جہاز نہ اڑائے تب بھی سماج اور اس دنیا میں اس کا مرتبہ اور وقار مسلّمہ ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
اس میں نزاکت ہونا اس کا فطری تقاضا اور دراصل اس کی طاقت ہے۔ جیسے ایک باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کا کردار ہے، بالکل ایسے ہی ایک بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کا کردار بھی پوری طرح برابر ہے، بلکہ بہت سی جگہوں پر مردوں کے کردار سے بہت بڑھ کر بھی ہے۔ اب آپ بتائیے کہ اگر صنف نازک کے اندر فطرت نے ماں کے روپ میں وہ شفقت اور شائستگی نہ رکھی ہوتی، تو کیا ’مرد‘ کی سی ’کرختگی‘ اور جسے شاید بہت سے لوگ ’مضبوطی‘ کہتے ہیں، اس تاثر میں وہ تحمل اور سمائی آسکتی ہے کہ وہ نسل نو کو نہ صرف جنم دے، بلکہ اس محض سانس لیتے ہوئے وجود کو ایک مکمل ’انسان‘ اور آدمی کے روپ تک پہنچا دے۔
ایسے میں کیا خواتین کو ’صنف نازک‘ کہنا کیا ان کی توہین کہلائے گا؟ اس صنف کی ’نزاکت‘ کی عکاسی کرتا ہوا یہ اندازِ تخاطب کیا انھیں کمزور بتانے کے لیے ہے۔۔۔؟ ہمارے خیال میں تو ایسا قطعی نہیں ہے۔ یہ نزاکت یا نسوانیت ہی ان کی اسی طرح تکمیلیتہے، جیسے مرد کے لیے کرختگی ہے اور اس کرختگی سے مراد صرف مردانہ تاثر ہے، ان کا چڑچڑا پن یا حاکمیت نہیں۔ ہمارے اس سماج میں مرد تو ضرور بے کار ہو سکتے ہیں، لیکن خواتین شاذ ونادر ہی کہیں ’بے کار‘ قرار دی جا سکتی ہیں۔
وہ اپنی دفتری زندگی میں ہوں یا نہ ہوں، گھر میں اگر وہ کسی چھوٹی بچی کی صورت میں بھی ہے، تو خاندانی نظام اور گھر میں اس کی اہمیت اسی عمر کے بیٹے سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ زندگی کے اس مرحلے پر بھی اپنے والد اور بھائی کی زندگیوں میں انتہائی اہم اور مددگار ہوتی ہیں۔ کم سنی میں بھی ہوں تو ان کے دم سے گھر میں رونق رہتی ہے اور یونھی ہماری زندگی اور ایک خاندان پروان چڑھتا ہے، اس کے جواب میں پھر والد اور بھائی سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی بیٹی اور بہن کے پورے حقوق ادا کریں اور اس میں کسی طرح کی غفلت نہ دکھائیں۔
لفظ ’عورت‘ کے کیا معنیٰ ہیں۔۔۔؟
کسی بھی زبان میں بہت سے الفاظ اور معنی مختلف پس منظر رکھتے ہیں، خواتین کو ’صنف نازک‘ کہنے پر اعتراض سے ہمیں خواتین کے لیے ایک اور زیادہ سہل اور معروف لفظ ’عورت‘ یاد آیا۔ کہنے کو یہ لفظ عربی زبان سے اردو میں آیا، لیکن عربی میں اس کے معنی قطعی طور پر ’خاتون‘ کے نہیں۔ عربی میں تو صنف نازک کے لیے ’نسا‘ کا لفظ موجود ہے۔ ماجرا یہ ہے کہ ہمارے خطے میں کچھ عرصے پہلے تک خواتین میں بہت زیادہ پردے کا رواج تھا۔
حتیٰ کہ وہ ایک گھر سے دوسرے گھر کا سفر بھی ’پالکی‘ میں کیا کرتی تھیں، جسے ’کہار‘ اٹھا کر ایک گلی سے دوسری گلی لے جاتے تھے، ایسے میں خواتین کو ’عورت‘ کہنا پروان چڑھا، جس کے عربی میں معنی ’چھپی ہوئی چیز‘ کے ہیں۔ چوں کہ خواتین مکمل پردہ کیا کرتی تھیں، اسی لیے انھیں ’عورت‘ کہا گیا اور یہ لفظ اردو میں اتنا رچ بس گیا کہ شاید ہی کوئی سوچتا ہو کہ خاتون کہے یا عورت۔ اب چاہے خاتون پردہ کرتی ہوں یا نہ کرتی ہوں، اسے عام معنوں میں ’عورت‘ ہی کہا جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی حرج بھی نہیں ہے۔
دنیا بھر کی زبانوں میں ایسے ہی الفاظ آتے، جاتے اور اپنے معنی بدلتے رہتے ہیں، اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، اس لیے اگر اب کوئی لٹھ لے کر کھڑا ہو جائے کہ نہیں جناب، اب ہم تو صرف ’خاتون‘ کہیں گے، خبردار، جو کسی نے عورت کہا تو، کیوں کہ یہ تو بہت ’’دقیانوسی‘‘ لفظ ہے۔ یقینی طور پر یہ رویہ صحت مندانہ تصور نہیں کیا جائے گا۔ اب اس لفظ کی قبولیت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ حقوق نسواں کی ایک معروف تنظیم ’عورت فائونڈیشن‘ کے نام سے سرگرم ہے۔