ڈونلڈ ٹرمپ پر توہین عدالت پر 9 ہزار ڈالر جرمانہ، جیل بھیجنے کی تنبیہ ویب ڈیسک منگل 30 اپريل 2024
نیویارک: امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رشوت دینے کی رقم چھپانے کے کیس میں گواہوں اور دیگر افراد پر الزامات عائد نہ کرنے کے حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 9 ہزار ڈالر جرمانہ عائد کردیا گیا اور خبردار کیا گیا کہ مزید حکم عدولی پر جیل بھیج دیا جائے گا۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف جاری مقدمے کی سماعت کرنے والے جج جسٹس جووان میرکان نے عدالت کے حکم کی خلاف ورزی پر 9 ہزار ڈالر جرمانہ عائد کیا اور کہا کہ اگر خلاف ورزی جاری رکھی تو جیل بھیجنے کے لیے غور کیا جائے گا۔
جج نے تحریری فیصلے میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد جرمانہ کافی نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ جرمانہ عائد کرنے کے لیے اس عدالت کے پاس اختیار نہیں ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ عدالت اپنے قانونی احکامات کی جان بوجھ خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی اور اگر حالات کے مطابق ضروری سمجھا گیا تو جیل بھیجنے کی سزا بھی سنائے گی۔
خیال رہے کہ عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ پر پابندی عائد کردی تھی کہ وہ گواہوں اور کیس سے منسلک دیگر افراد پر الزامات عائد نہ کریں لیکن سابق صدر دیگر افراد پر مسلسل الزام تراشی کرتے رہے۔
عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آن لائن دیے گئے 9 مختلف بیانات پر جرمانہ عائد کیا اور فی بیان ایک ہزار ڈالر جرمانہ عائد کیا ہے اور کہا کہ گواہوں اور کیس میں دیگر افراد پر الزامات عائد کرنے سے روکا گیا تھا لیکن وہ باز نہیں آئے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پروسیکیوٹر نے ممکنہ خلاف ورزی کے 10 پوسٹیں عدالت کے سامنے رکھے تھے، مذکورہ پوسٹیں 10 اپریل سے 17 اپریل کے دوران کی گئی تھیں اور ان میں ایک مضمون بھی شامل تھا، جس میں ان کے سابق وکیل مائیکل کوہن کو ‘عادی جھوٹا’ قرار دیا گیا تھا۔
عدالت نے ٹرمپ کو مذکورہ الزامات ان کی ویب سائٹ ٹرتھ سوشل کے اکاؤنٹ اور مہم کی ویب سائٹ سے ہٹانے کا بھی حکم دے دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالت کی جانب سے عائد کیے گئے جرمانے پر خبرایجنسی کی جانب سے رابطہ کرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا تاہم وہ کہتے رہے ہیں کہ یہ حکم ان کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 2024 کے امریکی صدارتی انتخاب کے امیدوار ہیں اور ان کے خلاف پورن اسٹار اسٹورمی ڈینئیلز کو 2006 میں پیش آنے والے واقعے پر خاموش رہنے کے لیے ادا کیے گئے ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے اور عدالت میں سماعت ہو رہی ہے۔