پاکستان

جنگوں میں مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا استعمال

یکم اپریل24ء کو اسرائیل کے ایف ۔35 طیاروں نے چھ میزائیل مار کر دمشق، شام میں ایرانی قونصل خانے کی ایک عمارت تباہ کر دی۔ اس عمارت میں ایرانی فوج کے کمانڈروں کا اجلاس جاری تھا۔

حملے میں سات ایرانی افسروں سمیت سولہ افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس حملے کا جواب دیتے ہوئے 13 اپریل کی شام ایران نے اسرائیل میں فضائی حملہ کر دیا۔ اس جوابی حملے کو ’’وعدہ ِصادق‘‘کا نام دیا گیا۔

ایرانی ہتھیار

میڈیا کے مطابق اس ایرانی حملے میں 185 ڈرون، 170 بلاسٹک میزائیل اور 30 کروز میزائیل استعمال کیے گئے۔ ایران نے سب سے پہلے شاہد۔ 136 اور شاہد۔238 ڈرون اسرائیل کی جانب داغے۔ مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کا بیشتر اینٹی میزائیل اسلحہ انھیں تباہ کرنے میں صرف ہو جائے اور اس کے بلاسٹک وکروز میزائیل پھر اپنے ٹارگٹ تک پہنچنے میں کامیاب رہیں۔

شاہد۔ 136 ایک کامی کازی یا خودکش ڈرون ہے جس پہ پچاس کلو وزنی بم لدا ہوتا ہے۔ شاہد۔238 زیادہ تیزرفتار ڈرون ہے۔ اس پر بھی پچاس کلو کا بم لدا ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایران کا اسرائیل پہ حملہ جدید عسکری تاریخ میں کسی بھی ملک پر سب سے بڑا ڈرون حملہ تھا۔

’’عماد اول،‘‘’’ قدر ۔110 ‘‘،’’شہاب ۔3 بی‘‘ اور’’خیبر شکن‘‘ وہ ایرانی بلاسٹک میزائیل ہیں جو اسرائیل پہ برسائے گئے۔ ان سبھی میزائیلوں پر سات سو سے ایک ہزار کلو وزنی بم لادے جا سکتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ ایرانی افواج ستائیس اقسام کے بلاسٹک میزائیل رکھتی ہیں جو مختصرسے وسطی فاصلے (Intermediate) تک مار رکھتے ہیں۔ ایران نے حملے میں ’’پاوہ‘‘ کروز میزائل استعمال کیا جو 1,650 کلومیٹر کی حدِمار رکھتا ہے۔

ایران کو ملے فوائد

اسرائیل کا دعوی ہے کہ نناوے فیصد ایرانی ڈرون و میزائیل دوران پرواز ہی تباہ کر دئیے گئے۔ پانچ یا نو بلاسٹک میزائیل اس کی ایک جنگی ائیربیس پر گرے مگر اسے زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ گویا اس لحاظ سے ایرانی جوابی حملہ کارگر ثابت نہیں ہوا کہ وہ اسرائیلی عسکری تنصیبات تباہ نہ کر سکا۔ تاہم دو لحاظ سے ایران کو فائدہ بھی پہنچا۔

اول یہ کہ ایرانی حملہ بنیادی طور پہ امریکی و برطانوی میزائیلوں ، طیاروں اور ریڈاروں کی مدد سے روکا گیا۔ اس حملے کو روکنے میں اسرائیلی ساختہ اسلحے کا کردار کم ہی رہا۔ اسرائیلی بھی بنیادی طور پہ امریکی ساختہ ہتھیار ہی استعمال کر رہے تھے۔ گویا اسرائیل کو امریکا و برطانیہ، دو سپر طاقتوں کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو ایرانی حملہ اسرائیلی تنصیبات میں وسیع پیمانے پہ تباہی لا سکتا تھا۔

امریکا، برطانیہ، فرانس، اسرائیل، اردن وغیرہ نے ایرانی ڈرون و میزائیل روکنے کے لیے بھرپور تیاری کر رکھی تھی۔ اس کے باوجود ایرانی میزائیل اسرائیل کی سرزمین میں نہ صرف داخل ہو گئے بلکہ اس کی ایک ائیربیس کو نشانہ بھی بنایا۔ اس کامیابی سے یقیناً ایران کے سائنس دانوں اور انجیئنروں کا حوصلہ بلند ہوا ہو گا۔ اور وہ زیادہ جوش وجذبے سے جدید اسلحہ بنانے کی تیاری کریں گے۔ ایران نے دکھا دیا کہ اسرائیل کا دفاع توڑا جا سکتا ہے اور وہ ناقابل شکست نہیں۔

دوم ایران نے بہت کم خرچ میں جوابی حملہ انجام دیا جبکہ اسرائیل کو کم ازکم پانچ گنا زیادہ اخراجات کا ٹیکا لگ گیا۔ امریکی میڈیا کی رو سے ایک ایرانی ڈرون پہ 20 سے 50 ہزار ڈالر لاگت آتی ہے۔ جبکہ ایک ایرانی بلاسٹک میزائیل ایک لاکھ ڈالر جبکہ کروز میزائیل دو ڈھائی لاکھ ڈالر میں تیار ہو جاتا ہے۔گویا اسرائیل پہ فضائی حملہ کر کے ایران کے دس تا بیس کروڑ ڈالر کے درمیان خرچ ہوئے۔

اسرائیل نے مگر ایرانی ڈرون ومیزائیل گرانے کے لیے جو امریکی ساختہ میزائیل استعمال کیے، وہ بہت مہنگے ہیں۔مثال کے طور پہ امریکا واسرائیل کے مشترکہ تیار کردہ’’ ایرو میزائیل‘‘ سے ایرانی بلاسٹک وکروز میزائیل گرائے گئے۔ اس ایک میزائیل کی قیمت ہی 35 لاکھ ڈالر ہے۔ اسرائیلی فوج کے سابق مالیاتی مشیر، بریگیڈیر جنرل ریم امینوسچ (Brig Gen Reem Aminoach) نے اسرائیل کی سب سے بڑی انگریزی نیوز سائٹ،وائی نیٹ کو بتایا: ’’ ایران کا حملہ روکنے کے لیے جتنے بھی عسکری انتظامات ہوئے ، ان پہ اسرائیل کے کم از کم ایک ارب تیس کروڑ ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔‘‘ یوں ایران نہایت کم خرچ میں اپنے مقاصد پانے میں کامیاب رہا۔

کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اسرائیل نے بھی چند دن بعد ایران پہ میزائیل حملہ کیا۔ اس حملے میں فضا سے زمین پر مار کرنے والے اسرائیل ساختہ آدھ ٹن وزنی سپرسونک میزائیل ، ریمپیج (Rampage)استعمال کیے گئے۔ اسرائیلی میزائیل کا ٹارگٹ دشمن میزائیلوں و طیاروں کو نشانہ بنانے والے ایرانی ایس۔ 300 میزائیل تھے جو روس نے ایران کو فراہم کر رکھے ہیں۔ تاہم اسرائیلی حملہ انھیں زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکا۔ اس حملے کی خاصیت یہ ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے ایران کی فضا میں داخل ہوئے بغیر ڈیرھ سو کلومیٹر دور سے اپنے میزائیل ایرانی عسکری تنصیبات پر داغے۔ گویا ایران کو خبردار کیا گیا کہ اسرائیل دور ہی سے اس پہ حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

افواج پاک کو کیا سبق ملا؟

اسرائیل و ایران کے حالیہ مجادلے نے پھر یہ حقیقت عیاں کر دی کہ مستقبل کی جنگوں میں میزائیل و ڈرون کا کردار بہت اہم ہو گا۔ وجہ یہی کہ ان ہتھیاروں کے ذریعے اپنے فوجیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالے بغیر دور بیٹھے دشمن کونشانہ بنانا ممکن ہے۔ پہلے اس کا اسلحہ میزائلوں و ڈرون سے تباہ کیا جائے اور پھر زمینی حملہ شروع ہو جائے۔

یہ عسکری حکمت عملی پہلی بار امریکا نے خلیجی جنگ (1991ء ) کے آغاز میں اپنائی تھی۔ تب عراق کی افواج دنیا میں چھٹی بڑی تھیں۔ مگر امریکیوں نے صرف چار ہفتوں میں ایک لاکھ سے زائد فضائی حملے کر کے اور 88,50 ٹن بارود گرا کر عراقی ٹینکوں، توپوں، بکتربند گاڑیوں، جنگی طیاروں اور عسکری تنصیبات کا صفایا کر دیا۔ یوں عراق لڑنے کے قابل نہیں رہا اور اسے مجبوراً جنگ بندی معاہدہ کرنا پڑا۔

اب تو جنگی طیاروں کی بھی ضرورت نہیں رہی اور ڈرون و میزائیلوں میں بم رکھے جانے لگے ہیں۔ ان میں مصنوعی ذہانت پہ مبنی ایسے حساس ترین آلات لگ رہے ہیں جو تباہ کرنے والے(اینٹی ) میزائیلوں سے ان کو محفوظ رکھ سکیں۔ نیز اڑتے ہوئے ان کی ریڈاروں اور میزائیلوں سے بچنے کی مہارت (manoeuvrability) کو بہتر سے بہترین کر دیں۔ حتی کہ بے پائلٹ جنگی طیارے بھی بننے لگے ہیں، جیسے ترکی کا ’’بایکار بیرقدار قزل الما‘‘ (Bayraktar Kizilelma) جس کے دو نمونے تیار ہو چکے۔

دوسری طرف امریکا وبرطانیہ ڈرون تباہ کرنے والی لیزر گن بنا رہے ہیں۔ یوں بیس پچیس ڈالر خرچ سے ڈرون یا میزائیل تباہ ہو سکیں گے۔ ایسے برقی نظام بھی ایجاد ہو رہے ہیں جو برقی لہریں چھوڑ کر ڈرون یا میزائیل کو فضا میں ناکارہ کر سکیں گے۔ غرض میزائلوں اور ڈرونوں کو زیادہ سے زیادہ کارگر بنانے یا پھر انھیں باآسانی تباہ کرنے کے ضمن میں متحارب ممالک کے درمیان زبردست مقابلہ جنم لے چکا۔

شعبہ جنگ وجدل میں جنم لیتی تبدیلیاں مدنظر رکھ کر پاکستان کو بھی ڈرون و میزائیل ٹکنالوجی کے آراینڈ ڈی (ریسرچ وڈویلپمنٹ ) پہ کثیر سرمایہ خرچ کرنا چاہیے۔ مقصد یہی ہے کہ حالات کے مطابق جدید اسلحہ بنا کر دشمنوں کی عسکری طاقت کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکے، نیز اپنا دفاع مضبوط تر بنا لیا جائے۔

بھارت نے ہائپرسونک (5 تا 10 ماخ رفتار والے) میزائیل بنا لیے ہیں، مثلاً ’’براہموس کروز میزائیل‘‘۔ اس کا فضا سے فضا میں مار کرنے والا’’ استرمیزائیل ‘‘بھی تقریباً ہائپرسونک(4.5 ماخ) رفتار رکھتاہے۔ پاکستان مگر ایساکوئی انتہائی تیزرفتار میزائیل نہیں بنا پایا۔ یہ جدید ہتھیار بنانے میں چین، ترکی، ایران سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اس کو تیار کرنا ضروری ہے تاکہ برصغیر پاک وہند میں عسکری طاقت کا توازن برقرار رہے۔

ضرورت پڑے تو ’’آرسی ڈی ‘‘جیسا ادارہ بھی بنا لیا جائے تاکہ تینوں بڑے اور پڑوسی اسلامی ممالک مشترکہ طور پہ عسکری سائنسی وٹکنالوجیکل تحقیق وتجربے کر سکیں۔ دور حاضر میں جو ملک عسکری لحاظ سے طاقتور ہے، عالمی معاملات میں اسی کی زیادہ سنی جاتی ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button