انٹر نیشینل

مشکوک صحت کیساتھ برطانوی شہزادی منظرعام سے غائب؛ حقائق کیا ہیں؟

لندن: برطانوی شہزادی کیٹ مڈلٹن کو آخری بار دسمبر میں منظر عام پر دیکھا گیا تھا اور پھر ان کے اسپتال میں داخل ہونے اور پیٹ کی سرجری کی پُر اسرار خبر سے  شکوک و شبہات نے جنم لیا جو آپریشن کے 2 ماہ بعد بھی ان کے منظر عام پر نہ آنے اور اپنی شاہی ذمہ داریاں نہ نبھا پانے پر مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔

پرنس ولیم کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن کو دو ماہ قبل کچھ روز کے لیے اسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔ برطانوی شاہی محل نے صرف یہ بتانے پر اکتفا کیا تھا کہ شہزادی کی پیٹ کی سرجری ہوئی اور وہ تیزی سے روبہ صحت ہیں۔

تاہم آپریشن کی نوعیت اور دیگر تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا جس سے طرح طرح کی افواہیں گردش کرنے لگی تھیں۔ کہا جا رہا تھا کہ شہزادی کو کینسر ہوگیا اور وہ آخری اسٹیج پر ہے۔

یہ افواہیں اتنی تواتر سے پھیلیں کہ کیٹ مڈلٹن کی ایک ویڈیو اپ لوڈ کی گئی جس میں وہ اہل خانہ کے ساتھ شاپنگ کر رہی ہیں اور ہشاش بشاش نظر آرہی تھیں تاہم لوگوں نے اس پر بھی اعتراض اُٹھایا۔

سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ جہاں کی یہ ویڈیو ہے وہاں سجاوٹ کرسمس کی لگ رہی ہے اس لیے یہ ویڈیو گزشتہ برس کی ہوسکتی ہے جب کہ کچھ کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں شہزادی نہیں بلکہ ان کی ہم شکل ہیں۔

جس پر شاہی محل کے ترجمان نے کہا کہ اگر شہزادی کیٹ مڈلٹن کا ڈی این اے بھی کرادیا جائے تب بھی سوشل میڈیا پر اعتراضات ختم نہیں ہوں گے۔

شہزادی کی ایک جعلی تصویر نے بھی سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا کردیا تھا جس کے بعد شاہی محل نے ایک نئے کمیونیکیشن اسسٹنٹ کے لیے اشتہار دیدیا ہے جسے 25 ہزار 642 پاؤنڈ کی تنخواہ دی جائے گی۔

دوسری جانب دی ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شہزادی کیٹ مڈلٹن نے اپنی شاہی ذمہ داریاں گھر سے انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ اب ورک فرام ہوم کریں گے۔

چنانچہ شہزادی کیٹ مڈلٹن نے ’’رائل فاؤنڈیشن سینٹر فار ارلی چائلڈ ہڈ‘‘ کے تحت بچوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے پر ایک تحقیقی مطالعے پر کام شروع کردیا گیا ہے۔

شہزادی کیٹ مڈلٹن کے ورک فرام ہوم کی خبر سے بھی ان کے چاہنے والوں کی تسلی نہیں ہوئی۔ لگتا ہے کہ یہ افواہیں اور شکوک و شبہات اُسی وقت دم توڑیں گے جب شہزادی بنفس نفیس اپنے دفتر آنا اور شاہی تقریبات میں شرکت کرنا شروع کریں گی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button