انٹر نیشینل

بھارت میں مظالم کی کوریج کرنے والی ڈیٹا ویب سائٹ “ہندوتوا واچ” پر پابندی عائد

نئی دہلی: انتخابات میں کامیابی کی خواہشمند مودی سرکار میڈیا سنسر شپ میں سرگرم ہے۔

بھارتی ریاست میں ہندوتوا مظالم کی رپورٹنگ کرنے والی ڈیٹا ویب سائٹ “ہندوتوا واچ” کو انتخابات سے قبل بلاک کر دیا گیا۔

الجزیرہ کا کہنا ہے کہ انتخابات سے دو ماہ قبل بھارت میں میڈیا سنسر شپ کے خدشات بڑھ گئے ہیں، مودی سرکار نے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کو دستاویز کرنے والی ڈیٹا ویب سائٹ ہندوتوا واچ کا X اکاؤنٹ اور ویب سائٹ بلاک کر دی۔

 

ہندوتوا واچ بھارت میں انتہا پسند ہندوتوا نظریہ کے پیروکار ہندوؤں کے اقلیتی اور پسماندہ برادریوں پر مظالم کی رپورٹنگ کے لیے امریکہ سے ہینڈل ہونے والی ایک آزاد تحقیقی ڈیٹا ویب سائٹ ہے۔ بھارت میں ہندوتوا واچ کی ویب سائٹ کو بلاک کرنا کشمیر میں میڈیا پر مکمل کنٹرول کا ایک اور ہتھکنڈا ہے۔

ہندوتوا واچ کے ساتھ ساتھ مودی سرکار نے ملک میں نفرت انگیز تقاریر کی رپورٹنگ کرنے والی ویب سائٹ انڈیا ہیٹ لیب کو بھی بلاک کر دیا۔ ہندوتوا واچ کے بانی کشمیری صحافی کو مودی کے سرکاری عہدیداروں نے ویب سائٹ کو بلاک کرنے کی دھمکیاں دی تھیں۔

بانی ہندوتوا واچ رقیب حمید نائیک نے بتایا کہ “ہمیں آئی ٹی ایکٹ کے تحت MEITY (منسٹری آف الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی) سے انڈیا ہیٹ لیب اور ہندوتوا واچ کی ممکنہ بلاکنگ کے حوالے سے گزشتہ ہفتے خط موصول ہوا تھا۔ مودی سرکار نے متنازعہ IT ایکٹ کے سیکشن 69A کے تحت ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے لیے نوٹس جاری کیے۔

مودی حکومت کی آزاد صحافت اور تنقیدی آوازوں کو دبانے کی ایک تاریخ موجود ہے۔ ستمبر 2023 میں ہندوتوا واچ اور انڈیا ہیٹ لیب نے مشترکہ طور پر مسلمانوں کے لیے نفرت انگیز تقریر پر ایک رپورٹ شائع کی۔

رپورٹ میں مسلمانوں کے لیے نفرت انگیز تقریر کے 255 سے زیادہ دستاویزی واقعات کا تجزیہ کیا گیا جن میں 80 فیصد واقعات مودی کی بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں رونما ہوئے۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ تقریباً 70 فیصد واقعات 2023 اور 2024 میں انتخابات ہونے والی ریاستوں میں ہوئے۔

نومبر 2022 میں ایکس (X) پلیٹ فارم ایلون مسک کی سرپرستی میں آنے کے بعد سے بھارت میں ایکس اکاؤنٹس پر مشتمل سنسرشپ بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ سال 2023 میں ایکس کمپنی نے امریکہ میں قائم انڈین امریکن مسلم کونسل اور ہندوز فار ہیومن رائٹس ان انڈیا کے ایکس اکاؤنٹس کو بھی روک دیا تھا۔

بانی دی پولس پروجیکٹ سچترا وجین کا کہنا ہے کہ “مودی حکومت اقلیتیوں کے خلاف تشدد کی معلومات، یا کسی بھی قسم کی دستاویزات نہیں چاہتی ہے”

ماضی میں، دو ڈیٹا بیس ہندوستان ٹائمز اخبار اور انڈیا اسپینڈ نے نفرت انگیز جرائم کی رپورٹنگ کرنے کی کوشش کی، لیکن 2017 اور 2019 میں ہندو قوم پرستوں کی شدید تنقید کے بعد انکا کام بند کر دیا گیا۔

عالمی میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (RSF) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2023 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کی درجہ بندی 180 ممالک میں سے 161 پر آ گئی، جو 2022 میں 150 تھی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button